میری بھتیجی کے پاس ساڑھے چھ تولہ سونا ہے، چاندی اور روپیہ نہیں ہے. خاوند ماہانہ خرچ کے لیے کچھ پیسے دے دیتا ہے، جو وہ خرچ کر لیتی ہے اور اگر بیوی کو کچھ خریدنا ہو تو وہ اسے خود بازار لے کے جاتا ہے اور خود خرید کر لے دیتا ہے۔ کیا اس کے اوپر زکوۃ فرض ہو گی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بھتیجی کی ملکیت میں ساڑھے چھہ تولہ سونے کے علاوہ کچھ بھی چاندی یانقدی یا مال تجارت میں سےموجود نہ ہو ، تو ان پر زکاۃ واجب نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم "والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر" وكان الدينار على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مقوما بعشرة دراهم.
وروي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال."
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب الزكاة، فصل كان له ذهب مفرد، 2/ 18، الناشر: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101880
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن