میرے بھائی کی موبائل کی دوکان ہے، میں نے اپنے بھائی کو ساڑھے تین لاکھ روپے دیے ہیں کہ اس پر میرے لیے روزگار کرو۔ اب وہ مجھے کہتا ہے کہ میں آپ کو ہر مہینہ 15000 یا 20 ہزارروپے منافع دوں گا، اور حساب کتاب وہ نہیں کرتا، کیا یہ ٹھیک ہے؟
آپ کے بھائی کا ساڑھے تین لاکھ روپے کے عوض 15 ہزار یا 20 ہزار روپے متعین کر کے بطور نفع دینا جائز نہیں ہے، بلکہ اس نفع دینے کا جائز طریقہ یہ ہے کہ نفع کا فیصد طے کیا جائے کہ آپ کے دیے ہوئے پیسوں سے جو نفع حاصل ہوگا اس میں سے اتنے فیصد (مثلاً نفع کا 40 فیصد یا 50 فیصد یا 60 فیصد) آپ کا بھائی آپ کو دے گا، حساب کتاب کیے بغیر 15 یا 20 ہزار روپے نفع متعین کر کے دینا سود کے زمرے میں آئے گا جو کہ شرعًا ناجائز اور حرام ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201759
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن