اگر کسی نے نذر مانی کہ میں یہ کام نہیں کروں گی، اگر کیا تو پورے عمر روزے رکھوں گی۔لیکن پھر کیا وہ کام تواب کیا کرے؟ اس کا کوئی اور طریق ہو تو راہ نمائی کر دیں!
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون نے جب یہ نذر مانی کہ اگر فلاں کام کیا تو ساری زندگی رکھوں گی، پھر وہ کام کر لیا تو مذکورہ خاتون پر ساری زندگی ہی روزہ رکھنا لازم ہو گا، اگر بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے لاچار ہوجائے اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہے، تب ہر روزے کے بدلے کسی محتاج کو صدقہِٴ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دے سکتی ہے۔
اور اگر نہ روزہ رکھنے پر قادر ہو اور نہ ہی فدیہ ادا کرسکتی ہو تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرے کہ وہ اس کی کوتاہی کو اپنی رحمت سے معاف کر دے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 735):
’’(ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)؛ لحديث: «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم ...‘‘ الخ
الفتاوى الهندية (1/ 209):
" كان النذر بصيام الأبد فعجز لذلك أو باشتغاله بالمعيشة لكون صناعته شاقةً فله أن يفطر ويطعم لكل يوم مسكيناً على ما تقدم، وإن لم يقدر على ذلك لعسرته يستغفر الله إنه هو الغفور الرحيم."
البناية شرح الهداية (5/ 324):
" لو قال: لأصومن الدهر، أو قال: لأصومن في الدهر، ففي الأول لايبر حتى يصوم الدهر كله، وفي الثاني لو صام ساعةً منه يبر في يمينه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206201435
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن