بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساڑھے تین تولہ سونے پر زکاۃ کا حکم


سوال

میری بیوی کے پاس 3.5 تولہ سونا موجود ہےاس کے علاوہ چند جوڑے کپڑوں کے موجود ہیں کیا اس پر زکات واجب ہے؟

جواب

اگر کسی کی ملکیت میں صرف سوناہو اس کے علاوہ نقد، چاندی یا مالِ تجارت کچھ بھی نہ ہو تو  زکوۃ لازم ہونے کےلیے ساڑھے سات تولہ سونا ہونا ضروری ہے، لیکن اگر سونے کے ساتھ  ساتھ  بنیادی ضرورت سے زائد نقدی، چاندی یا مالِ تجارت میں سے بھی کچھ ملکیت میں ہو تو ساڑھے سات تولہ کا اعتبار نہیں، بلکہ اگر ان مملوکہ اشیاء کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو زکات ادا کرنا لازم ہوگا، بشرط یہ کہ اتنا قرض ذمے میں نہ ہو جسے منہا کرنے کے بعد نصاب کے بقدر مالیت باقی نہ رہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر ساڑھے تین تولہ سونے کے علاوہ نقد، چاندی یا مال تجارت میں سے کچھ نہیں ہےتو سائل کی بیوی پر زکوۃ نہیں ہوگی، استعمال کے جوڑوں کو شمار نہیں کیا جائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه هكذا في العيني شرح الكنز."

(کتاب الزکاۃ، ج: 1،ص: 170،ط: دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا ... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر."،

(كتاب الزكاة، ‌‌فصل مقدار الواجب في زكاة الذهب، ج: 2، ص: 19، ط: دار الكتب العلميه بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"و شرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، و قيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 312، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں