بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکس چلانے اور اس میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال

 سرکس چلانا یا اس میں کام کرنا جائز ہے، اس سرکس میں جمناسٹک سیکھی ہوئی عورتیں ہوتی ہیں اور چند مسخرے بھی ہوتے ہیں جو لوگوں کو ہنساتے اور خوش کرتے ہیں اور جانور بھی ہوتے ہیں، تو کیا ایسا سرکس چلانا یا اس میں ملازمت کرنا ناجائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سوال کی روشنی میں اور دیگر دستیاب معلومات کے مطابق سرکس درجِ ذیل شرعی مفاسد پرمشتمل  ہوتا ہے:

1: سرکس جمناسٹک یعنی جسمانی کرتب دکھانے والی بے ہودہ خواتین پر مشتمل ہوتاہے، اور اجنبی  خواتین کو عام حالت میں دیکھنا منع ہے ، تو بے ہودہ حالت میں دکھانا یاخود دیکھنا اور بھی زیادہ حرام ہے۔

2۔سرکس دیکھنے والوں میں مرد وزن کے اختلاط کی بناء پر نامحرم خواتین بھی ہوتی ہیں ، جن  کو دیکھنا بھی سخت گناہ ہے۔

3۔ دستیاب معلومات کے مطابق سرکس میں میوزک اور گانے کا عام استعمال ہوتا ہے، جب کہ میوزک سننا یا سنانا دونوں حرام ہے۔

4:سرکس میں مختلف لوگوں کا مذاق اور استہزا کیا جاتا ہے، اور مجمعے کی داد رسی لینے کی  لالچ میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا تک نہ کرے۔

5: سرکس وقت کا ضیاع ہے، اور لہو لعب ہے۔

لہذا مذکورہ مفاسد کی وجہ سے سرکس چلانا یا اس میں ملازمت کرنا ناجائز اور حرام ہے، ایسی جگہ میں ملازمت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تاکہ رزقِ حلال سے محروم نہ ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن موسی بن أبي عیسی المدیني: قال: قال رسول الله صلى الله علیه و سلّم: ” كیف بكم إذا فسق فتیانکم و طغى نساءكم؟ قالوا: یا رسول اللہ! و إن ذلك لکائن؟ قال: نعم و أشدّ منه، کیف بکم إذا لم تأمروا بالمعروف و تنهوا عن المنکر؟ قالوا: یا رسول الله و إن ذلك لکائن؟ قال: نعم و أشدّ منه، کیف بکم إذا رأیتم المنکر معروفاً و المعروف منکراً".

(کتاب الرقائق لابن المبارک، باب فضل ذكر الله عز وجل، رقم الحدیث:1376، ج:1، ص:484، ط:دارالکتب العلمیۃ )

ترجمہ:" موسیٰ بن ابی عیسیٰ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی؟  صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے؟  صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی  جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے؟۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "(وعن نافع - رضي الله عنه - قال: كنت مع ابن عمر في طريق، فسمع مزمارا، فوضع أصبعيه في أذنه وناء) : بهمز بعد الألف أي: بعد (عن الطريق إلى الجانب الآخر) أي: مما هو أبعد منه (ثم قال لي: بعد أن بعد) : بفتح فضم أي: صار بعيدا بعض البعد عن مكان صاحب المزمار (يا نافع! هل تسمع شيئا؟) أي: من صوت المزمار (قلت: لا، فرفع أصبعيه من أذنيه، قال) : استئناف بيان وتعليل بالدليل (كنت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فسمع صوت يراع) : بفتح أوله أي: قصب (فصنع مثل ما صنعت) أي: من وضع الأصبعين في الأذنين فقط، أو جميع ما سبق من البعد عن الطريق ومراجعة السؤال والله أعلم. (قال نافع: وكنت إذ ذاك صغيرا) : ولعل ابن عمر أيضا كان صغيرا فيتم به الاستدلال والله أعلم بالحال، مع أنه قد يقال إنه أيضا كان واضعا أصبعيه في أذنيه، فلما سأله رفع أصبعيه فأجاب وليس حينئذ محذور، فإنه لم يتعمد السماع، ومثله يجوز للشخص أن يفعل أيضا بنفسه إذا كان منفردا، بل التحقيق أن نفس الوضع من باب الورع والتقوى ومراعاة الأولى، وإلا فلا يكلف المرء إلا بأنه لم يقصد السماع لا بأنه يفقد السماع والله أعلم."

( باب البیان والشعر ، الفصْل الثالث، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه )

الفقہ الاسلامی میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد."

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے

"وماکان سببًا لمحظور محظور... ونظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:350، ط:ایچ ایم سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101940

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں