بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سڑک پر پڑے کیچڑ کا حکم


سوال

عام گزرگاہ پر کیچڑ ہو اور اس سے چھینٹے کپڑوں پر لگ جائیں،  اب ایک بندہ ہے، اسے یہ شک ہے کہ میرے کپڑے نجس ہوگئے اور نماز پڑھتا ہے، تو  کیا نماز درست ہے؟ کیا ایسی صورت میں کپڑے دھونے کا حکم ہے یا صرف پانی بہانا کافی ہے؟

جواب

کیچڑ کے بارے میں اگر یقینی طور پر یہ معلوم ہو کہ اس میں ناپاکی کی آمیزش ہے، یا اس بات کا غالب گمان ہو اور کیچڑ کپڑوں پر لگ جائے اور قدرِ درہم سے زائد بھی ہو، تو نماز کے لیے اس کا پاک کرنا ضروری ہے اور اگر كيچڑ بارش کے پانی کے ساتھ مل کر جمع ہوجائے اور وہ صرف بارش کا ہی پانی ہو، اس میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوں کی آمیزش نہ ہو  تو وہ پانی  اور كيچڑ پاک ہے، اس سے كپڑے ناپاك نہیں ہوں گے۔

اور اگر بارش کے پانی میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوں  کی آمیزش ہو جائے اور وہ  کسی کے کپڑے یا جسم پر لگ جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:

1۔ جس شخص كي كسي علاقے میں كثرت سے آمد و رفت هو اور اس علاقے میں مسلسل بارش ہوتی ہو  اور اس سے بچنا بھی مشکل ہو، تو  اس کیچڑ میں  اگر بعینہ نجاست نظر نہ آئے یعنی نجاست کا اثر واضح نہ ہو ، تو اسے  ایسے شخص کے حق میں  ناپاک نہیں سمجھا جائے گا، البتہ اگر یہ اسے دھو کر نماز پڑھ لے تو بہت بہتر ہے، اور اگر بعینہٖ نجاست نظر آئے تو پھر اس کو پاک کرنا ضروری ہوگا۔

2۔ اس علاقے میں بارش مسلسل اتنی زیادہ نہیں ہوتی، یا اس شخص کی اس راستہ پر آمد ورفت کم ہو، تو چوں کہ اس کے حق میں یہ ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی تنگی ہے تو ایسے شخص کے لیے بہر صورت اس کو پاک کرنا ضروری ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"مطلب في العفو عن طين الشارع

(قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اهـ.
أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.
والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة للغالب، وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضًا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس."

(کتاب الطهارة، ج:1، ص:324، ط:سعيد)

  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں