بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

صراحۃً یا دلالۃً و نیۃ ًنسبت الی الزوجہ کے بغیر طلاق کے الفاظ سے قضاءً و دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوتی


سوال

کیا صراحتاً یا دلالتًا نسبت الی الزوجہ کے بغیر طلاق واقع نہ ہونے کا فیصلہ صرف دیانتًا ہوتا ہے یا قضاءً بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ؟

جواب

بیوی کی طرف صراحۃ یا دلالۃ طلاق کی نسبت نہ کی جائے اور نہ نیت طلاق بھی نہ ہو تو قضاءََ کے ساتھ دیانۃََ بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في قول البحر: إن الصريح يحتاج في وقوعه ديانة إلى النية (قوله أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها۔"

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:250، ط:سعید)

الفقه الإسلامي وأدلته  میں ہے:

"يفهم مما ذكر أنه يشترط لإيقاع الطلاق ما يأتي:

1 - استعمال لفظ يفيد معنى الطلاق لغة أو عرفا، أو بالكتابة أو الإشارة المفهمة.

2 - أن يكون المطلق فاهما معناه، ولو بلغة أعجمية، فإذا استعمل الأعجمي صريح الطلاق، وقع الطلاق منه بغير نية، وإن كانت كناية احتاج إلى نية. ولو لقن رجل صيغة الطلاق بلغة لا يعرفها، فتلفظ بها، وهو لا يدري معناها، فلا يقع عليه شيء.

3 - إضافة الطلاق إلى الزوجة، أي إسناده إليها لغة، بأن يعينها بأحد طرق التعيين، كالوصف، أو الاسم المسماة به، أو الإشارة والضمير، فيقول: امرأتي طالق، أو فلانة طالق، أو يشير إليها بقوله: هذه طالق، أو أنت طالق،أو يقول: هي طالق، في أثناء حديث عنها؛ أو إسناده إليها عرفا مثل: علي الطلاق أو الحرام إن أفعل كذا، أو الطلاق يلزمني إن لم أفعل كذا، فالطلاق هنا مضاف إلى المرأة في المعنى، وإن لم يضف إليها في اللفظ، وذلك خلافا للحنابلة.

4 - ألا يكون مشكوكا في عدد الطلاق أو في لفظه. ويقع الطلاق الصريح ولو بالألفاظ المصحفة، نحو طلاغ، وتلاغ، وطلاك، وتلاك، أو بأحرف الهجاء: ط، ا، ل، ق."

(القسم السادس: الاحوال الشخصیۃ، البَابُ الثَّاني: انحلال الزَّواج وآثاره، الفَصْلُ الأوَّل: الطَّلاق، المبحث الثاني ـ شروط الطلاق وقدره ومحله وصيغته، ج:9، ص: 357 ، ط:  دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے :

"بغیر نسبت کے صرف ’’ لفظ طلاق‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟

(سوال)   زید کی والدہ و ساس کے درمیان ایک عرصے سے خانگی جھگڑے ہورہے تھے زید سخت بیمار ہے ایک روز زید کے برادر خورد نے زید کی والدہ سے کہا کہ اماں یہ جھگڑے ختم نہ ہوں گے ہم اور تم کہیں  چلیں، ان دونوں کو یہاں رہنے دو اور زید کا بھائی اپنی والدہ کو لے جانے لگا، زید نے کہا کہ تم نہ جاؤ میں اس جھگڑے کو ہی ختم کیے دیتا ہوں اور یہ کہہ کر کہا کہ میں نے طلاق دی، یہ الفاظ اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر کہے، پھر  اس کے بعد جوش میں آکر صرف طلاق طلاق طلاق پانچ چھ مرتبہ کہا، لیکن اپنی زوجہ کا نام ایک مرتبہ بھی نہیں لیا اور نہ اس سے مخاطب ہوکر کہا اور زید کا خیال بھی یہی تھا کہ صرف لفظ طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، زوجہ گھر میں موجود تھی، لیکن اس نے الفاظ مذکورہ نہیں سنے۔  

(جواب ۳۵) زید کے  ان الفاظ میں جو سوال میں مذکور ہیں لفظ طلاق تو صریح ہے، لیکن اضافت الی الزوجہ صریح نہیں ہے، اس لیے اگر زید قسم کھاکر  یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کرلیا جائے گا،  اور طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا-         محمد کفایت  اللہ کان اللہ  لہ"۔

(کتاب الطلاق، باب الطلاق الصریح، الفصل الثانی فیما یتعلق بترک الاضافۃ فی الطلاق،  ج:8 ، ص:72،   ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144410101207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں