ہم امریکا میں مختلف کاموں سے وابستہ تھے، لیکن یہ کام اب مہنگائی کی وجہ سے چل نہیں رہے؛ اس لیے ہم نے سوچا ہے کہ اگر پٹرول پمپ ( جس کے ساتھ سپر سٹور بھی ہوتا ہے اور اس میں گروسری ( کھانے پینے کی اشیاء ) اور مختلف قسم کے مشروبات ہوتے ہیں جو سب 80 فیصد حلال ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ 15 سے 20 فیصد بیئر ( مشروب جسمیں 5 سے 10 فیصد الکوحل ہوتا ہے) اور لاٹو( گیم 5%) وغیرہ بھی رکھنا پڑتا ہے، اگر نا رکھی جائیں تو باقی اشیاء بھی کوئی لینے نہیں آتا، یعنی اس کے بغیر سٹور چل نہیں پاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم اکثریت میں ہیں۔
میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ اگر ہم اس 15 سے 20 فیصد اشیاء جو کہ حرام ہیں اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اپنے استعمال میں نا لائیں اور بغیر کسی ثواب کی نیت سے کسی محتاج کو دے دی جائے ، اور باقی حلال اشیاء کی آمدنی اپنے استعمال میں لائی جائے اور زکوۃ، صدقات، اور خیرات وغیرہ بھی اسی رقم سے ادا کی جائے، اس تصور کے ساتھ اسٹور کھولا جائے تو کیا یہ جائز ہے؟
واضح رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے والے، پلانے والے، بنانے والے، بیچنے والے سب پر لعنت فرمائی ہے؛ اس لیے ایک مسلمان کے لیے خود یا اپنے کسی کارندے (وکیل) کے ذریعے شراب فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،اسی طرح شراب کا ”سپر اسٹور“ میں معمول کا حصہ ہونا ، اور اس کے بغیر اسٹور کا نہ چلنا، اور غیر مسلموں کا ملک کا ہو نا یہ ایک مسلمان کے لیے شراب بیچنے کے لیے وجہِ جواز نہیں بن سکتا،لہذا حرام رقم غلطی سے ملکیت میں آگئی ہوتو اسے بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا لازم ہے، مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ بغیر ثواب کے صدقہ کی نیت سے انسان حرام کماتا رہے،مشرکینِ مکہ سخت قحط کے زمانے میں جواکھیلتے تھے اورجیتی ہوئی اشیاءخود استعمال میں نہیں لاتے تھے، بلکہ فقیروں پر صدقہ کردیا کرتے تھے، مگر اس کے باوجود ان کاعمل ناجائز اورحرام ہونے کی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدقہ اور لوگوں کی فلاح وبہبود کی نیت سےحرام مال کمانے کی اجازت نہیں، جیساکہ توبہ کی نیت سے گناہ کی اجازت نہیں ہے اوراس وجہ سے بدپرہیزی کرنا معقول نہیں کہ دواموجود ہے، لہذا جان بوجھ کر حرام کمانا حرام کا مالک بننا یہ جائز نہیں ہے ۔
ترمذی شریف میں ہے:
"عن أنس بن مالك قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخمر عشرة: عاصرها، ومعتصرها، وشاربها، وحاملها، والمحمولة إليه، وساقيها، وبائعها، وآكل ثمنها، والمشتري لها، والمشتراة له ".
(باب النهي ان يتخذ الخمر خلا،581/3،شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
صحیح بخاری میں ہے :
"عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: «أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عام الفتح، وهو بمكة: إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام".
فتاوی شامی میں ہے :
"قال في البحر: والحاصل أن بيع الخمر باطل مطلقا".
(باب البیع الفاسد،56/5،سعید)
ایضا:
"لما في البزازية أخذه مورثه رشوة أو ظلما، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه".
(باب البیع الفاسد،99/5، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504102042
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن