زید بکریاں چرا رہے تھے عمرکے گھر کے سامنے تو وہاں نہ کھیتی تھی، نہ باغ وغیرہ ،عمر آیا اور زید سے کہا کہ بکریاں لے جاؤ، آپس میں بات بن گئی ۔ عمر نے زید کو مکے سے سر پےماراہے ، البتہ کوئی ظاہری زخم سر پر نہیں تھا ۔ ڈاکٹر کے قول کے مطابق اس کے سر کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے اور اس کے سر کا خون مغز کے ساتھ مل چکا ہے ،مارنے کے بعد ڈاکٹر کے پاس لے آیا ،انہوں نے جواب دیا کہ بڑے ہسپتال لے جاؤ، انہوں نے آپریشن کی، آپریشن سے پہلے بھی باتوں میں کچھ تغیر آچکاتھا، آپریشن کے بعد دو دن تک زندہ رہا، پھر تیسرے دن وفات پا گئے، اب یہ قتل کون سا قتل ہے اور آج کل کی قیمت سے کتنی دیت ہوگی ؟
صورت مسؤلہ میں مذکورہ قتل "قتل خطا"ہےقتلِ خطا کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے ،کفارے کے طور پر قاتل کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے،البتہ دیت کی ادائیگی اس قاتل کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے، عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس قاتل کا تناصر ( باہمی تعاون) کا تعلق ہو، یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، سونے کی صورت میں اگر دیت ادا کی جائے تو دیت کی مقدار ایک ہزار دینار اور درہم کے اعتبار سے دس ہزار (۱۰،۰۰۰ ) درھم جس کا اندازہ جدید پیمانے سے 30.618 کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰه وَكَانَ اللّٰه عَلِيمًا حَكِيمًا" [سورة النساء، آیت:92]
فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:
"(قال: ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما) لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه لأن القائد لا يقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه."
(كتاب الديات،10/ 330،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(أما) وجوب الدية فلوجود معنى الخطأ، وهو عدم القصد (وأما) وجوب الكفارة وحرمان الميراث والوصية فلوجود القتل مباشرة."
(كتاب الجنايات،وجوب الدية،القتل الذي هو في معنى القتل الخطأ نوعان،7 / 271،ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) الثالث (خطأ وهو) نوعان: لأنه إما خطأ في ظن الفاعل ك (أن يرمي شخصا ظنه صيداً أو حربياً) أو مرتداً (فإذا هو مسلم أو) خطأ في نفس الفعل كأن يرمي (غرضاً) أو صيدا (فأصاب آدمياً) أو رمى غرضاً فأصابه ثم رجع عنه أو تجاوز عنه إلى ما وراءه فأصاب رجلاً أو قصد رجلاً فأصاب غيره أو أراد يد رجل فأصاب عنق غيره، ولو عنقه فعمد قطعاً أو أراد رجلاً فأصاب حائطاً ثم رجع السهم فأصاب الرجل فهو خطأ؛ لأنه أخطأ في إصابة الحائط ورجوعه سبب آخر والحكم يضاف لآخر أسبابه، ابن كمال عن المحيط. قال: وكذا لو سقط من يده خشبة أو لبنة فقتل رجلاً يتحقق الخطأ في الفعل ولا قصد فيه، فكلام صدر الشريعة فيه ما فيه. وفي الوهبانية: وقاصد شخص إن أصاب خلافه ... فذا خطأ والقتل فيه معذر وقاصد شخص حالة النوم إن يمن ... فيقتص إن أبقى دما منه ينهر.
(و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله) ؛ لأنه معذور كالمخطئ (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة."
(كتاب الجنايات،6/ 530،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100670
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن