سروسز کے نئے کاروبار سے متعلق رہنمائی درکار ہے۔میں نے مشینوں کی آٹومیشن سے متعلق نیا بزنس شروع کیا ہے۔ میرے بزنس کا ماڈل یہ ہے کہ لوگ مجھے اپنی فیکٹری بلا کر وزٹ کرواتے ہیں۔ میں ان کو نشاندہی کرتا ہوں کہ یہ یہ کام کرنے سے یا اپنے سسٹم کو اٹومیٹک کرلینے سے آپ کو بجلی کی بچت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسٹمر اگر اپنی مشینوں کی آٹومیشن کروانا چاہیں تو میں ان کو کوٹیشن دیتا ہوں کہ آٹومیشن کے اس پروجیکٹ میں یہ یہ سامان لگے گا سامان کی پوری تفصیل میں لکھتا ہوں مارکیٹ میں وہ چیزیں جس ریٹ پر ملتی ہیں اس سے 10، 15 فیصد پرافٹ مارجن رکھ کے میں کوٹیشن بناتا ہوں۔ کوٹیشن کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک حصے میں سامان کی تفصیل لکھ کر ٹوٹل پیسے لکھتا ہوں اور دوسرے حصے میں اپنی سروسز کے پیسے لکھتا ہوں۔ کیونکہ سامان کی فروخت پر ٹیکس کا تناسب اور ہوتا ہے اور سروسز پر ٹیکس کا تناسب اور۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوٹیشن میں جس سامان کی تفصیل لکھی تھی وہ چیز مارکیٹ سے نہیں مل رہی پھر اس کے متبادل کوئی اور چیز لگانی پڑتی ہے۔ اس کے حوالے سے بھی رہنمائی چاہیے۔ بعض کسٹمر ٹیکس سے بچنے کے لیے، یا کسی اور وجہ سے بینک میں ڈائریکٹ رقم منتقل کرنے یا چیک دینے کی بجائے کیش پر کام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کیا کیش پر کام کیا جا سکتا ہے؟ اپنی کمپنی کے نام کا بینک اکاؤنٹ بنانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے کمپنی کو مختلف اداروں میں رجسٹر بھی کروا لیا ہے اس ساری تفصیل کے بعد میری رہنمائی فرما دیجئے کہ شرعی لحاظ سے اس کاروبار کے حوالے سے مجھے کن کن چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا؟
سائل کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق سائل دو طرح کے کام کرتا ہے:
۱) سائل لوگوں کو بجلی کی بچت کرنے کی غرض سے ان کی صنعت کے خود کار بنانے (آٹو میشن) کے طریقہ کار کا مشورہ دینے کی خدمت فراہم کرتا ہے اور اس پر اجرت لیتا ہے۔
۲) سائل مکمل سامان خرید کر مکمل نظام بنا کر دیتا ہے اور اس پر ان سے رقم وصول کرتا ہے۔
دونوں صورتوں کا حکم مندرجہ ذیل ہے:
۱) سائل کے لیے مذکورہ خدمت فراہم کر کے اجرت لینا جائز ہے۔سائل معاملہ کرتے وقت اپنی اجرت طے کرلے اور اپنا عمل یعنی جن امور کے متعلق سائل اپنی خدمت فراہم کرے گا وہ طے کرلے۔
۲) اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں:
الف) اگر سائل مکمل نظام بنانے کی ذمہ داری لے لیتا ہے اور خود کاری کے لیے مکمل سامان خرید کر مکمل نظام بنا کردیتا ہے تو شرعا یہ استصناع کا معاملہ ہے اور سائل کی کمائی حلال ہے۔نیز سائل کے لیے سامان پر ۱۰ سے ۱۵ فیصد نفع رکھنا بھی جائز ہے ۔ معاملہ کی درستگی کے لیےسائل معاملہ کرتے وقت اپنا عوض طے کرلے جس میں سامان کی قیمت اور سائل کی مزدوری سب داخل ہو ، چاہے ہر ایک کی الگ رقم متعین کرے یا ایک مجموعی قیمت طے کرلے دونوں طریقہ درست ہیں۔ سائل جو چیز بنا کر دے گا اس کی تمام صفات اس طور پر طے کر لے کہ کسی قسم کا کوئی ابہام اور خفاء نہ رہے۔
ب) اگر سائل دو الگ الگ حیثیتوں سے کام کرتا ہے، اول وہ کمپنی کے وکیل کی حیثیت سے سامان خریدتا ہے اور پھر اس کو لگانے کی الگ اجرت لیتا ہے تو پھر سائل کے لیے سامان پر ۱۰ سے ۱۵ فیصد نفع کمانا جائز نہیں ہوگا۔
نیز سائل کا یہ سوال کہ بعض مرتبہ جو سامان معاملہ طے کرتے وقت (کوٹیشن میں ) گاہک کو بتایا جاتا ہے وہ بازار میں مہیا نہ ہونے کی صورت میں دوسرا مال لگایا جاتا ہے تو دونوں صورتوں (شق الف اور شق ب) میں تفصیل یہ ہے کہ سائل اس بات کی گاہک سے پیشگی اجازت لے لے کہ فلاں فلاں سامان اگر اس کمپنی کا مہیا نہیں ہوا تو اس کے مساوی کوالٹی کا دوسرا سامان لگاؤں گا یا پھر بعد جب سامان مہیا نہ ہورہا ہو اس وقت اجازت لے کر دوسرا سامان لگا دے۔
کیش پر کام کرنا جائز ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔سائل کیش پر کام کرنے کے متعلق کیا پوچھنا چاہتا ہے اس کی تفصیل بتا کر جواب معلوم کریں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما شرائط جوازه (فمنها) : بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته؛ لأنه لا يصير معلوما بدونه.
(ومنها) : أن يكون مما يجري فيه التعامل بين الناس - من أواني الحديد والرصاص، والنحاس والزجاج، والخفاف والنعال، ولجم الحديد للدواب، ونصول السيوف، والسكاكين والقسي، والنبل والسلاح كله، والطشت والقمقمة، ونحو ذلك - ولا يجوز في الثياب؛ لأن القياس يأبى جوازه، وإنما جوازه - استحسانا - لتعامل الناس، ولا تعامل في الثياب."
(کتاب الاستصناع،ج نمبر ۵، ص نمبر ۳، دار الکتب العلمیۃ)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فضروب: منها: أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع من المنازعة، فإن."
(کتاب الاجارۃ، شرائط رکن الاجارۃ، ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۷۹، دا ر الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101446
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن