بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ثناء ختم ہونے سے پہلے امام نے قراءت شروع کردی / تکبیر تحریمہ کہنے پر شبہ ہوگیا


سوال

۱۔ مقتدی نے ثناء پڑھنا شروع کی کہ امام نے قراءت شروع کردی، تو مقتدی کیا کرے، ثناء مکمل کرے یا رک جائے؟

۲۔ تکبیرِ تحریمہ کہنے کے بعد شبہ  ہوا، تو دوبارہ تکبیر تحریمہ کہہ لی اور  قراءت کی مقدار کا بھی اعادہ کیا، تو اس کا کیا حکم ہے؟  اکیلے نماز پڑھنے کی صورت میں،  اور امام کے ساتھ،  دونوں صورتوں  کا حکم واضح فرمائیں۔

جواب

۱۔ مقتدی اگر امام کے پیچھے ثناء پڑھ رہا ہو اور امام بلند آواز سے قراءت کرنا شروع کردے تو مقتدی خاموش ہوجائے، جہاں تک ثناء پڑھ لی اس پر اکتفاء کرلے اور امام کی قراءت کو غور سے سنے۔

۲۔ اگر کسی شخص نے تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ نماز شروع کی، پھر اس کو شک ہوگیا کہ آیا تکبیر کہی ہے یا نہیں؟ تو اس نے دوبارہ تکبیرِ تحریمہ کہہ لی اور جتنی قراءت کی تھی وہ بھی دہرا لی، پھر اس کو یاد آگیا کہ اس نے تکبیر کہی تھی، تو ایسی صورت میں اگر امام کے ساتھ ہو تو سجدہ سہو لازم نہ ہوگا، البتہ اگر منفرد نماز پڑھ رہا ہے تو پھر نماز کے آخر میں سجدہ سہو لازم ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌أنه ‌يأتي ‌به ‌كل مصل إماما كان أو مأموما أو منفردا لكن قالوا المسبوق لا يأتي به إذا كان الإمام يجهر بالقراءة للاستماع، وصححه في الذخيرة."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، آداب الصلاة، ١/ ٣٢٧، ط: دار الكتاب الإسلامي)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"قال: (‌رجل ‌افتتح ‌الصلاة فقرأ ثم شك في تكبيرة الافتتاح وأعاد التكبير والقراءة ثم علم أنه كان كبر فعليه سجود السهو)؛ لأنه زاد على التكبيرة والقراءة ساهيا، وكذلك إن كان ركع قبل أن يشك بنى على ذلك الركوع وليس تكبير الثاني يقطع الصلاة؛ لأنه نوى عندها إيجاد الموجود، ونية الإيجاد فيما هو موجود لغو، بقي مجرد التكبير وهو ليس يقطع الصلاة."

(كتاب الصلاة، باب سجود السهو، ١/ ٢٣٢، ط: دار المعرفة بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما المقتدي ‌إذا ‌سها ‌في ‌صلاته فلا سهو عليه؛ لأنه لا يمكنه السجود؛ لأنه إن سجد قبل السلام كان مخالفا للإمام، وإن أخره إلى ما بعد سلام الإمام يخرج من الصلاة بسلام الإمام؛ لأنه سلام عمد ممن لا سهو عليه، فكان سهوه فيما يرجع إلى السجود ملحقا بالعدم لتعذر السجود عليه، فسقط السجود عنه أصلا."

(كتاب الصلاة، فصل بيان من يجب عليه سجود السهو ومن لا يجب عليه سجود السهو، ١/ ١٧٥، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں