بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ثمن ادھار ہونے کی صورت میں بائع کے لیے مبیع کو روکنا جائز نہیں


سوال

میری ایک دکان تھی، جس کو کرایہ پر دیا ہوا تھا، اب اس دکان کا میں،  ایک فرد کے ساتھ سودا کر چکا ہوں، سودے کے وقت  ہمارے درمیان کچھ معاملات طے ہوئے تھےاور قبضے کے حوالے سے  ہم دونوں فریقین کے درمیان یہ بات طے ہوئی تھی کہ  خریدار مکمل ادائیگی چھ ماہ میں کرے گا  اور مکمل ادائیگی کے بعد قبضہ دیا جائے گا، قبضہ کی بات ہم نے "ایگری منٹ "میں لکھوائی تھی،لیکن اس کے بعد وہ  اپنا خود "ایگری منٹ"  بنواکر لائے اور اس میں قبضہ کی بات نہیں لکھوائی، جب  ہم نے سب کے سامنے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ قبضہ آپ مکمل ادائیگی کے بعد دیں گے، یہ بات ہمارے درمیان زبانی طے ہوئی اور اس وقت انہوں نے ہم سے مارکیٹ کے اصول کی کوئی بات نہیں کی تھی، اس وقت خریدار ہم کو 60 فیصد سے 65 فیصد  ادائیگی کر چکا  ہے، خریدار  کا کہنا ہے کہ میں آپ کو 50 فیصد  رقم ادا کر چکا ہوں،لہذا کرایہ کا حق دار میں ہوں، بقول اس کے مارکیٹ کے  اصول کے مطابق 50 فیصد ادائیگی کے بعد دکان کے کاغذات یا قبضہ آپ  میرے حوالے کریں گے، جب کہ سودا کےوقت یہ بات نہیں ہوئی تھی ۔

 اب  مسئلہ یہ ہے کہ:

1۔ دکان کا کرایہ جو آرہا ہے، اس کو وصول کرنے کا حق کس کو ہے؟

2۔دوسرا مسئلہ ہے کہ شرعی اعتبار سے کیا دکان کا قبضہ اور کاغذات کا مطالبہ خریدار ہم سے پوری ادائیگی  ہونے سے قبل کر سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب

1،2۔صورت ِ مسئولہ میں جب  سائل (بائع) اور خریدار کے درمیان دکان کا سود اہو  چکا ہے ، اس لیے بیع مکمل ہو گئی ہے اوردکان کی قیمت کی ادائیگی میں جب  سائل خود اس بات پر راضی تھا کہ چھ ماہ میں  مکمل ادائیگی ہو اور اب  خریدار 60 / 65 فیصد ادائیگی بھی کر چکا ہے  تو ایسی صورت میں سائل کو دکان اپنے پاس رکھنے کا حق نہیں ہے، بلکہ   خریدار کو حوالہ کر دینا ضروری ہے اور دکان کی  فروختگی کے بعد سے جتنا کرایہ آیاہے ، وہ بھی خریدار کو دیا جائے گا اور آئندہ کے کرایہ کا حق بھی شرعاً خریدار کو حاصل ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا ...

"قال أصحابنا رحمهم الله تعالى للبائع حق حبس المبيع لاستيفاء الثمن إذا كان حالا كذا في المحيط وإن كان مؤجلا فليس للبائع أن يحبس المبيع قبل حلول الأجل ولا بعده كذا في المبسوط."

(کتاب البیوع،الباب الرابع في حبس المبيع بالثمن،الفصل الأول في حبس المبيع بالثمن:3 / 3،  15، ط: رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں