شاملات کی زمین میں عورتوں کا حصہ ہوتا ہے؟
واضح رہے کہ شاملات کی زمین پورے گاؤں/قبیلہ والوں کی مشترکہ زمین ہوتی ہے،اس زمین سے گاؤں/قبیلہ کے ہر ہر فرد انتفاع حاصل کرسکتا ہے، جہاں تک اس زمین سے حاصل شدہ آمدن/منافع (میوہ جات اور غلہ جات) کی تقسیم کی بات ہے اس سلسلے میں ہر علاقہ اور گاؤں کا اپنا اپنا رواج اور طریقۂ کار ہے، عام طور پر قبائلی علاقوں میں خاندان یا گھرانے کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں، افراد کے مابین تقسیم نہیں کرتے، اگر اس طریقۂ تقسیم میں ہر خاندان یا گھرانے تک ان کا حق پہنچتا ہو تو ان لوگوں کی اپنی صوابدید پر مروّجہ طریقہ کے مطابق تقسیم کرنا جائز ہے ، افراد کے مابین تقسیم کر کے ہر ہر مرد وعورت کو جدا جدا حصہ دینا ضروری نہیں۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(المادة 1271) الأراضي القریبة من العمران تترک للأھالی مرعی ومحتصدا ومحتطبا ویقال لھا الأراضی المتروکة.
الأراضي القريبة من العمران أي الخارجة عن العمران أو القريبة منه تترك للأهالي على أن تتخذ مرعى أو بيدرا أو محتطبا ولا يعد انتفاع الأهالي منقطعا عن تلك الأراضي (الطوري). والمحلات التي يصل إليها صوت جهير الصوت عند صياحه من أقصى العمران تعد قريبة من العمران وحريما للعمران فلا تعد مواتا ولو لم يكن لها صاحب... كما أن الأراضي الواقعة داخل العمران أي في داخل القصبة والقرية لا تعد مواتا وتدعى هذه الأراضي الأراضي المتروكة فلا يجوز إحياء هذه الأراضي ولا تمليكها لآخر لأنه إذا كان الناس يستعملونها في الحال فهم محتاجون إليها تحقيقا وإذا كانوا لا يستعملونها فهم محتاجون إليها تقديرا وهذه الأراضي هي كالطريق والنهر."
(الكتاب العاشر: الشركات،الباب الرابع في بيان شركة الإباحة،الفصل الخامس في إحياء الموات،المادة :279/3،1271،ط:دار الجیل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102638
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن