بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سامانِ تجارت کی زکاۃ کا حکم


سوال

ہماری کینیڈا میں ایک ورکشاپ ہے، ہمارا کاروبار گاڑیوں کی مکینیکل مرمت  کا ہے، اور ہمارے پاس گاڑیوں کا سامان بھی ہوتا ہے، سامان کی نوعیت جس میں سامان کی قیمت اور مزدوری بھی شامل ہے، ہمارے پاس ان گاڑیوں کا  سامان وافر مقدار میں رہتا ہے، اب سال گزرنے پر  اس سامان کی زکاۃ کا طریقہ کا ر کیا ہوگا ؟

جواب

صورتِ مسؤلہ میں  گاڑیوں کے سامان کی حیثیت چوں کہ مالِ تجارت کی ہے ،اس لیے اس کی زکاۃ کی ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہے کہ  دکان میں جو مالِ تجارت(گاڑیوں کا سامان ) موجود ہو اس کی مالیت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی، اگر مالِ تجارت کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم ہو، لیکن ساتھ میں کچھ سونا یا چاندی یا نقدی بھی ملکیت میں موجود ہو اور سب کی مجموعی قیمت مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو بھی اس پورے مجموعے پر سال گزرنے کے بعد زکاۃواجب ہوگی،البتہ  مالِ  تجارت کی زکاۃ کی ادائیگی میں قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوگا قیمتِ خرید کا نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ مالِ تجارت (گاڑیوں کا سامان )نفع پربیچنے کی غرض سے آپ نے اپنی ورکشاپ میں رکھا   ہوا ہے، سال گزرنے پر  جتنا مال (گاڑیوں کا سامان ) آپ کے پاس موجود ہو اس کی اس وقت  اس شہر کے  بازار میں جو   قیمتِ فروخت ہو اس کا حساب کرلیا جائے ،اس کے ساتھ ساتھ جو نقدی موجود ہو اسے بھی  اس  سامان کی قیمت کے ساتھ شامل کرکے کل  مال کا  ڈھائی فیصد  بطور زکاۃ ادا   کر نا آپ پر لازم ہوگا ، باقی جو مال فروخت کردیا ہو  تو  جس قیمت پر جو سامان فروخت ہوا ہو اسی کا اعتبار ہوگا، لیکن یہ دیکھا جائے گا کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم  اگر زکاۃ کی ادائیگی کے وقت موجودہو تو اس کو نصاب میں شامل کیا جائے گا اور اگر وہ رقم موجود نہیں ہویا خرچ ہوگئی ہو تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی،نیز   جو مال آلات و اسبابِ تجارت پر خرچ کیا ہو مثلاً ورکشاپ یامشینری  وغیرہ   اس کی مالیت پر  بھی زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، و قالا: يوم الأداء. و في السوائم يوم الأداء إجماعًا وهو الأصح، و يقوم في البلد الذي المال فيه، و لو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح".

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الغنم،ج:2،ص:286،ط:سعید)

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة میں ہے:

"وإن أدى من القيمة أدى خمسة دراهم قيمتها يوم حولان الحول الذي هو يوم الوجوب عند أبي حنيفة، وعندهما يؤدي عشرة دراهم قيمتها يوم الأداء.......فالحاصل: أن أبا حنيفة يعتبر القيمة يوم الوجوب في جنس هذه المسائل، وهما يعتبران القيمة يوم الأداء، وهذه المسألة في الحاصل بناءً على معرفة الواجب في عروض التجارة يوم حولان الحول، فعندهما الواجب يوم حولان الحول جزء من النصاب عيناً، لكن للمالك ولاية نقل الواجب إلى القيمة بالأداء، فتراعى قيمته يوم النقل والدليل (على) أن الواجب ما قلنا، قوله عليه السلام: «خذ من الإبل الإبل ومن البقر البقر» والدليل عليه أن في نصاب السوائم تعتبر القيمة يوم الأداء، حتى إن من وجب في إبله بنت مخاض قيمته خمسة دراهم ثم تغير السعر، فصارت تساوي درهمين ونصفاً فأراد أن يؤدي القيمة أدى درهمين ونصفاً بالإجماع، فقياس عروض التجارة على السوائم أن تعتبر القيمة يوم الأداء".

(کتاب الزکاۃ،الفصل الثالث في بيان مال الزكاة،ج:2،ص:437،438،ط: دار إحياء التراث العرب)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144307101957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں