میرے والد صاحب نے ایک شخص سے مکان خریدا تھا ،ان کو پیسے بھی ادا کردیئےتھے، قبضہ میں بھی لےلیا تھا ، پاور بھی کرالیا تھا ،میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے،میرے والد صاحب نے جس سےیہ مکان خریدا تھا، وہ بھی انتقال کر چکا ہے ،لیکن میرے والدصاحب کے بائع نے جس سے یہ مکان خریدا تھا وہ زندہ ہے ، اب ہم اس ز ندہ بائع کے پاس گئے کہ اس فلیٹ کے کاغذات پر دستخط کردے ،لیکن وہ اب بھی اپنے آپ کو مالک سمجھ رہا ہے اور دستخط کرنے میں ٹال مٹول کررہا ہے ،تو اس کا یہ معاملہ شرعاً کیسا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر دونوں سودے مکمل ہوچکے ہیں ،اور قیمت کی ادائیگی کے بعد گھر بھی حوالے کیا جاچکا ہے، تو پہلے مالک کی اس گھر پر ملکیت باقی نہیں رہی ، لہٰذااس کا گھر کے کاغذات اپنے نام پر ابھی تک رکھنا اورخریدار کے نام کرانےمیں رکاوٹ بننا جائز نہیں ہے، ایسا کرنا شرعاً ظلم اور ناجائز ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه".
(حدیث عم أبي حرة الرقاشي، رقم الحدیث: 20695، ج34، ص:299، ط:مؤسسة الرسالة)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"في البيع بالثمن الحال أعني غير المؤجل للبائع أن يحبس المبيع إلى أن يؤدي المشتري جميع الثمن".
(الکتاب الأول في البیوع،الباب الخامس: في بيان المسائل المتعلقة بالتسليم والتسلم، الفصل الثاني: في المواد المتعلقة بحبس المبيع، رقم المادّۃ:278، ط مکتبة رشدیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"من باع سلعة بثمن قيل للمشتري ادفع الثمن أولا ومن باع سلعة بسلعة أو ثمنا بثمن قيل لهما سلما معا كذا في الهداية وتسليم المبيع هو أن يخلي بين المبيع وبين المشتري على وجه يتمكن المشتري من قبضه بغير حائل."
(كتاب البيوع ،الباب الرابع في حبس المبيع بالثمن وقبضه ،الفصل الثاني في تسليم المبيع وفيما يكون قبضا وفيما لا يكون قبضا،ج:3،ص:16،دارالفکربیروت)
الدرالمختار میں ہے:
"لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة."
(كتاب البيوع ،مطلب لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة،ج:4،ص:521،ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100970
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن