میرا کریانہ اسٹور ہے، اب دکان پر دو قسم کے گاہک آتے ہیں، نقد والے بھی آتے ہیں اور ادھار والے بھی آتے ہیں، تو میں ادھار والے گاہک کو مہنگا ریٹ لگاتا ہوں، اور ریٹ مہنگا کرنے کی وجہ ادھار ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ ادھار والے گاہک کو مہنگے ریٹ کے ساتھ اشیاء خوردنوش بیچنا میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ کوئی بھی چیز ، نقد کے مقابلے میں ادھار پر، زائد قیمت کے ساتھ فرخت کرنا جائز ہے، بشرط یہ کہ مجلس عقد میں عاقدین کی رضامندی سے ادھار کی ایک قیمت طے ہوجائے اور معاملہ مبہم نہ رہے،یعنی یہ واضح ہوجائے کہ اگر اس چیز کے نقد پیسے دو گے تو اتنے(مثلاً: پچاس روپے) دینے ہوں گے اوراگر قسطوں/ادھار میں دو گے تو اتنے (مثلاً ساٹھ روپے) دینے ہوں گے،تو یہ معاملہ جائز ہے، اور کوئی ایک صورت متعین کیے بغیر معاملہ مکمل کرلیا جائے تو یہ صورت ناجائز ہے۔نیز ادھار کی صورت میں اضافی رقم لینا شرعاً سود نہیں ہے،کیوں کہ سود شرعاً اس اضافہ کو کہا جاتا ہے، جو عوض سے خالی ہو، جب کہ اس صورت میں ایک طرف ایک مبیع(فروخت کی جانے والی متعین چیز) اور دوسری طرف اس کے عوض میں طے شدہ قیمت ہے۔
مبسوط سرخسی میں ہے:
"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد ... الخ."
(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدة، ج:13، ص:8، ط:دارالمعرفة)
ہدایہ میں ہے:
"قال: ومن اشترى غلاما بألف درهم نسيئة فباعه بربح مائة ولم يبين فعلم المشتري، فإن شاء رده، وإن شاء قبل؛ لأن للأجل شبها بالمبيع؛ ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل، والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة فصار كأنه اشترى شيئين وباع أحدهما مرابحة بثمنهما، والإقدام على المرابحة يوجب السلامة عن مثل هذه الخيانة، فإذا ظهرت يخير كما في العيب وإن استهلكه ثم علم لزمه بألف ومائة"؛ لأن الأجل لا يقابله شيء من الثمن."
(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية،ج:3، ص:78، ط:رحمانیه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602101255
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن