میں ایک بندے کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوں، ہم ادھار خرید کر آگے بنا طے کیے مال بیچتے ہیں، چوں کہ میرا پارٹنر کہتا ہے کہ اچھے گاہک کے ساتھ طے نہیں کیا جاتا ،چار پانچ دن کی ادھار کیش ہی کہلاتی ہے، لیکن پھر اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ وہ لوگ دو چار دن اوپر کردیتے ہیں، میں اپنے پارٹنر سے اس بات پر اختلاف کرتا ہوں تو وہ کہتا ہے دو تین دن پیسے دیر ہوجاۓ، یہ شریعت میں اچھا کہلاتا ہے اور وقت پر ادائیگی سود خور کرتا ہے۔
واضح رہے کہ بیع کے صحیح ہونے کے لیے ثمن(قیمت)کا طےہونا شرط ہےاور اگر معاملہ ادھار ہو تو اس کی مدت کا متعین کرنا بھی ضروری ہے ،اور قیمت طے نہ ہونے کی صورت میں یا مدت مجہول ہونے کی صورت میں بیع فاسد ہو تی ہے ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل کا مال خرید کر آگے اس کی قیمت طے کیے بغیر یا مدت متعین کیے بغیر (کہ دو سے تین دن میں ) بیچنا شرعاً درست نہیں ،اس طرح کے معاملہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان..............وأما الخاصة: فمنها معلومية الأجل في البيع بثمن مؤجل فيفسدان كان مجهولا."
(کتاب البیوع،الباب الاول فی تعریف البیع ،ج:3،ص:3،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100442
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن