بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ثمن پر قبضہ کرنے سے پہلے اُس میں تصرف کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے کسی سے سودا کیا، رقم دینے کا معاملہ اِس سودے میں یہ طے ہوا کہ دو مہینے بعد رقم مشتری بائع کو دے دے گا، دو مہینے بعد حسبِ وعدہ جب رقم دینے کا وقت آیا تو بائع نے مشتری سے کہا کہ جو رقم میری بنتی ہے اس سے ہم دوسرا سودا کرتے ہیں یعنی اس رقم کے بد لے میں آپ مجھے فلاں چیز دے دو،  تو آیا پہلے سودے کی رقم وصول ہونے سے پہلے اُسی رقم کے بدلے میں بائع مشتری کے ساتھ دوسرا سودا کر کے کوئی اور چیز خرید سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بائع ، مشتری کی رضامندی سے اُس سے اپنی رقم کے بدلے میں کوئی اور چیز خرید تا ہے تو شرعًا ایسا کرنا جائز ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وجاز التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين) كمكيل (أو لا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر وأجرة وضمان متلف) وبدل خلع وعتق بمال وموروث وموصى به.والحاصل: جواز التصرف في الأثمان والديون كلها قبل قبضها عيني (سوى صرف وسلم) فلا يجوز أخذ خلاف جنسه لفوات شرطه.

قال ابن عابدين: (قوله: ولو بعوض) كأن اشترى البائع من المشتري شيئا بالثمن الذي له عليه أو استأجر به عبدا أو دارا للمشتري، ومثال التمليك بغير عوض هبته ووصيته له نهر، فإذا وهب منه الثمن ملكه بمجرد الهبة لعدم احتياجه إلى القبض، وكذا الصدقة ط عن أبي السعود."

(كتاب البيوع، فصل في التصرف في المبيع والثمن قبل القبض .....، 152/5، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں