بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

واجب الوصول ثمنِ مؤجل میں زکات


سوال

زیدکے پاس 3،لاکھ  روپیہ ہے،جن پرسال گزرنےکواب تک ایک مہینہ باقی ہے  کہ زیدنےاپنی ضرورت کےلئےزمین فروخت کردی ،جس کی قیمت 5،لاکھ روپیہ تھی ،لیکن وہ 5،مہینے بعدوصول کی جائی گی ،اب سوال یہ ہے کہ اس موجودہ 3، لاکھ پرمہینہ گزرنےکےبعداس 5 لاکھ پربھی زکوٰۃواجب ہوگی یاصرف اُن 3لاکھ پر؟کسی سے سناہےکہ يه مال مستفادهے،اور یہ قرض ممکن الاصول ہے ،لہذا اس میں زکوٰۃ واجب ہے،لیکن بعض علماءکرام فرماتے ہیں کہ اس پرابھی تک قبضہ نہیں آیاہے،یہ  مال مستفادشمارنہیں ہوگی،  لہذا اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ۔برائے کرم جواب عنایت فرمائیں!

جواب

واضح رہےکہ  زیدنے   جب زمین  فروخت کی ،توزیداس کی قیمت کامالک بن گیا،جوکہ خریدنےوالےکےذمے واجب الاداہے۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں زیدچوں کہ پہلے سے صاحب ِنصاب  ہے، لہذا  زید  کے ذمے   فروخت کردہ زمین کی قیمت پرزکوۃ واجب ہے ،البتہ زکوٰۃ کی ادائیگی وصول ہونے کےبعدواجب ہوگی،تاہم اگرپہلےاداکرناچاہےتوبھی اداکرسکتاہے، اور بہتر یہ ہے کہ ایک ساتھ ہی زکوٰۃ ادا کردے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"الأول: فهو ثبوت الملك للمشتري في المبيع، وللبائع في الثمن للحال۔"

(کتاب البیوع ،فصل فی حکم البیع،ج،5،ص، 233)

الدرمع الردمیں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك ويعتبر ما مضى من الحول قبل۔۔۔(قوله: وأملاك) من عطف العام على الخاص؛ لأنه جمع ملك بكسر الميم بمعنى مملوك، هذا بالنظر إلى اللغة أما في العرف فخاصة بالعقار فيكون عطف مباين۔۔۔(قوله: ويعتبر ما مضى من الحول) أي في الدين المتوسط؛ لأن الخلاف فيه، أما القوي فلا خلاف فيه لما في المحيط من أنه تجب الزكاة فيه بحول الأصل، لكن لا يلزمه الأداء حتى يقبض منه أربعين درهما.

أما المتوسط ففيه روايتان في رواية الأصل۔۔۔تجب الزكاة فيه ولا يلزمه الأداء حتى يقبض مائتي درهم فيزكيها. وفي رواية ابن سماعة عن أبي حنيفة: لا زكاة فيه حتى يقبض ويحول عليه الحول؛ لأنه صار مال الزكاة الآن فصار كالحادث ابتداءووجه ظاهر الرواية أنه بالإقدام على البيع صيره للتجارة فصار مال الزكاة قبيل البيع۔"

(کتاب الزکاۃ،ج،2، ص،305۔306ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے: 

"المراد بالحول أن يتم على المال بيد صاحبه سنة كاملة قمرية، فإن لم تتم فلا زكاة فيه، إلا أن يكون بيده مال آخر بلغ نصابا قد انعقد حوله، وكان المالان مما يضم أحدهما إلى الآخر، فيرى بعض الفقهاء، أن الثاني يزكى مع الأول عند تمام حول الأول۔"

(ج،23،ص، 242،ط:وزارة الاوقاف الشئون الاسلاميه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں