بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ثمن کے ادا کرنے میں بلا وجہ تاخیر کرنے کا حکم


سوال

کسی کی طرف سے دئیے گئے مال کے بدلے جو رقم بنتی ہے ،اس کو ادا کرنے میں بلا وجہ تاخیر کرنا یا جان بوجھ کر نہ دینے کا ارداہ کرنا، گناہ کے کس زمرے میں آتا ہے؟

جواب

کسی کی طرف سے دیے گئے مال کے بدلے جو رقم بنتی ہے اس کو ادا کرنے میں بلا وجہ تاخیر کرنا گناہ ہے، قیامت کے دن ظلمت اور تاریکی کا سبب ہے۔

فتح الباري میں ہے:

"وفي الحديث الزجر عن المطل واختلف هل يعد فعله عمدا كبيرة أم لا فالجمهور على أن فاعله يفسق لكن هل يثبت فسقه بمطله مرة واحدة أم لا قال النووي مقتضى مذهبنا اشتراط التكرار ورده السبكي في شرح المنهاج بأن مقتضى مذهبنا عدمه واستدل بأن منع الحق بعد طلبه وابتغاء العذر عن أدائه كالغصب والغصب كبيرة وتسميته ظلما يشعر بكونه كبيرة والكبيرة لا يشترط فيها التكرر نعم لا يحكم عليه بذلك إلا بعد أن يظهر عدم عذره"۔

(فتح الباري لابن حجر،باب الحوالة،ج:4،ص:466،ط:دار المعرفة - بيروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"ومنها المطل وهو تأخير قضاء الدين لقوله عليه الصلاة والسلام مطل الغني ظلم فيحبس دفعا للظلم لقضاء الدين بواسطة الحبس"۔

(بدائع الصنائع،كتاب الحجر والحبس،الفصل الثاني الحبس،ج:7،ص:173،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم۔


فتوی نمبر : 144510100064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں