بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سامان ایک جگہ سے دوسری لے جانے کے لیے رشوت دینا


سوال

اگر اپنا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے رشوت دینی پڑجائے تو کیا حکم ہے؟

 

 

جواب

جو سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا حکومت کی طرف سے ممنوع ہو ،اس کی  اسمگلنگ کرنا درست نہیں ہے ، کیوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والا شخص اس ریاست میں رائج قوانین پر عمل درآمد کا (خاموش)  معاہدہ کرتاہے، اور جائز امور میں معاہدہ کرنے کے بعد اسے پورا کرنا چاہیے؛  اس طرح کے جائز امور سے متعلق قانون کی خلاف ورزی گویا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، نیز قانون شکنی کی صورت میں  مال اور عزت کا خطرہ رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے،  اور اپنے آپ کو ذلت  کے مواقع سے بچانا ضروری ہے،اور اگر اس سے بچنے کے لیے رشوت دینی پڑے تو یہ ناجائز ہے ۔

اور جو سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لانا حکومت کی طرف سے ممنوع  نہ ہو، بلکہ حکومت کی طرف سے اس کی اجازت ہو ،اس کے باجود راستہ میں  رشوت دیے بغیر اس کا لے جانا مکمن نہ ہو تو ایسی صورت میں اس  شخص کو چاہیے  اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)   اپنا  سامان لے جائے ، لیکن اگر  بغیر رشوت دیے کام نہ ہو اور شدید ضرورت ہو ،کوئی دوسرا متبادل راستہ بھی  نہ ہو تو  ایسی  مجبوری میں   رشوت دینے  کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔ 

 سنن أبی داود  میں ہے:

’’عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»‘‘.

(3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

فتاوی شامی میں ہے:

’’دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ‘‘.

 (6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".

(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵ ،ط:دارالکتب العلمیة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں