بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سلسل البول کے مریض کے لیے مصحف اور موبائل میں تلاوت کا حکم


سوال

 سائل کو سلسل البول کی بیماری ہے،  جس کی وجہ  سے اکثر بغیر وضو کی حالت میں رہتا ہے، تو کیا قرآن مجید کی تلاوت کے  لیے دیکھ کر تلاوت کر سکتا ہے بشرطیکہ ورق گردانی کے  لیے ہاتھ میں کوئی کپڑا یا رومال وغیرہ ہو  جس سے ورق گردانی کرے یااگر موبائل میں تلاوت کروں تو  وہاں بھی ورق گردانی کے لیے رومال وغیرہ کا استعمال کروں؟

جواب

اگر  سائل کو سلسل البول کی بیماری اس نوعیت کی ہے کہ   عذر کے بغیر درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ وضو کر کے پاکی کی حالت میں   وقتی فرض نماز ادا کی جاسکے  تو ایسی صورت میں سائل  شرعاً معذور کہلائے گا،اور  شرعی معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کرے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض اور نوافل ادا کرلے اور  قرآنِ کریم کی تلاوت  کرے، (اس ایک وقت کے درمیان میں  اگرچہ پیشاب کے قطرے آئیں وہ باوضو ہی سمجھا جائے گا بشرطیکہ کوئی اور سبب مثلاً ریح ، یا خون وغیرہ  وضو کوتوڑنے کانہ پایا جائے) یہاں تک کہ اس نماز کا وقت ختم ہوجائے، جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو سائل کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔( پھر اُس پورے وقت میں اپنی عبادات جاری رکھ سکتا ہے)
اور اگر سلسل البول (پیشاب کے قطرے آنے  ) کی بیماری اس حد تک نہیں بلکہ  پیشاب کے قطرے  نکلنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے  تو اس صورت میں سائل شرعی معذور کے حکم میں نہیں ہو  گا اور   باقاعدہ وضو کی حالت میں ہی نماز ادا کرنی ہوگی، چنانچہ ایسی صورت میں سائل کو کوشش کرنی چاہیے کہ جماعت کے وقت سے پہلے اچھی طرح بیت الخلا  کے تقاضے سے فارغ ہوجائے، پھر اگر جماعت کے وقت وہ وضو کر کے جماعت میں شامل ہونے لگے اور  سلسل البول کا مسئلہ ہو جائے تو اگراس کو روک کر نماز پڑھنا سائل کے لیے ممکن ہو تو نماز پڑھ لے،اور  اگر اس وقت پیشاب کے قطروں کو روکنا سائل کے بس میں نہ ہو تو کچھ انتظار کرے، جب قطروں  کا سلسلہ ختم ہوجائے تو پھر وضو کر کے نماز پڑھ لے، یہی حکم تلاوت   اور ان عبادات کا بھی ہے جن کے لیے باوضو ہونا شرط ہے، اوراس صورت میں اگر  مسلسل تلاوت کرنی ہو تو وضو ٹوٹ جانے کی صورت میں جسم پر پہنے ہوئے لباس کے علاوہ کسی پاک کپڑے میں مصحف پکڑ لے، اور کسی پاک چیز سے صفحے پلٹتا رہے۔

اسی طرح موبائل میں قرآنِ کریم  کی تلاوت کرنا  جائز ہے،  البتہ موبائل کی اسکرین پر   قرآنِ کریم  کھلا ہوا ہو تو  اس  (اسکرین) کو  وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے، اگرصفحہ پلٹنے کی ضرورت پیش آئے تو کسی پاک کپڑے وغیرہ سےاسکرین کو چھو کر پلٹ سکتا ہے،  یا سائڈ بٹن سے صفحہ تبدیل کرتا رہے، البتہ اسکرین کے علاوہ  موبائل کے دیگر حصوں کو  مختلف  اطراف  سے وضو کے بغیر چھونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305):

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]، (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فوراً له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته".

وفیہ ایضاً:

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرزأو بصرة به يفتى، 

(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازا، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل".

(۱/ ۱۷۳، کتاب الطھارۃ، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں