مدعی اور مدعی علیہ کسی شرعی مسئلے کے لیے کسی عالم دین کے پاس رضامندی اور خوشی سے جائیں اور وہ مسئلہ سننے کے بعد دونوں سے پوچھے کہ میرے فیصلے کو دونوں قبول کرو گے؟ تو دونوں اس راضی ہو جائیں اور کہیں کہ ٹھیک ہے ہم قبول کریں گے، پھر فیصلہ مدعی کے خلاف آنے پر مدعی ماننے سے مکر جائے اور دوسرے عالم دین کے پاس جانے کے لیے کہےتو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہےکہ حکم/ثالث کافیصلہ اگرغیرشرعی نہ ہوتو فریقین کےلیےاس پرعمل کرنالازم ہوتاہے،اور اگر ثالث کے فیصلہ کرنے سے پہلے اس تحکیم سےکوئی ایک فریق رجوع کر لے تو اس کا رجوع کرنا درست ہے،لیکن فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی ایک فریق کا تحکیم سے رجوع کرنا درست نہیں۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں جب فریقین نے رضامندی سےایک عالم کو ثالث مقرر کیا ، اورعالم نےفریقین کےبیانات سننےکےبعد شرعی فیصلہ کیا، اورفیصلہ سنانےسےپہلےفریقین میں سےکسی ایک فریق نےتحکیم سےرجوع بھی نہیں کیاتھا، تواب فریقین کےلیےاس فیصلہ کوماننااوراس پرعمل کرنالازم ہے، اورفریقین میں سے مدعی کےلیےاس فیصلہ سےانکارکرناجائزنہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"تفسيره تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح، كذا في محيط السرخسي...ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد ولا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة، ولا يجوز في حد الزنا والسرقة والقذف."
(كتاب أدب القاضي، الباب الرابع والعشرون في التحكيم، 397/3، ط:دار الفکر)
فتح القدیرمیں ہے:
"(ولكل واحد من المحكمين أن يرجع ما لم يحكم عليهما) لأنه مقلد من جهتهما فلا يحكم إلا برضاهما جميعا (وإذا حكم لزمهما) لصدور حكمه عن ولاية عليهما
(قوله ولكل واحد من المحكمين أن يرجع ما لم يحكم عليهما لأنه مقلد من جهتهما) إذ هما الموليان له فلهما عزله قبل أن يحكم كما أن للسلطان أن يعزل القاضي قبل أن يحكم ولو حكم قبل عزله نفذ وعزله بعد ذلك لا يبطله فكذا هذا (وإذا نفذ حكمه لزمهما لصدور حكمه عن ولاية كاملة عليهما) فقط لأنه لا يكون دون الصلح وبعدما تم الصلح ليس لواحد أن يرجع."
(كتاب أدب القاضي، باب التحكيم، 317/7، ط:دار الفکر)
بدائع الصنائع ميں هے:
"فإن وقع في فصل فيه نص مفسر من الكتاب، أو الخبر المتواتر، أو الإجماع، فإن وافق قضاؤه ذلك نفذ ولا يحل له النقض؛ لأنه وقع صحيحا قطعا، وإن خالف شيئا من ذلك يرده؛ لأنه وقع باطلا قطعا."
(كتاب أدب القاضي، فصل في بيان ما ينفذ من القضايا، ج:7، ص:14، ط:دار الكتب العلمیة)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"سوال [۸۰۲۱] دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو حکم بنانے کے بعد حکم کے فیصلہ دینے سے قبل کسی فریق کے اس حکم کو منسوخ اور رد کر دینے کی وجہ سے وہ شرعا رد اور منسوخ ہو جاتا ہے یا نہیں؟ جب کہ حکم پر کچھ بے اعتمادی ہو جائے یعنی معقول وجہ سے حکم کے حکم ہونے کو منسوخ کیا جائے ۔
الجواب حامداً ومصلياً :
اعتماد رہے یا نہ رہے، دونوں صورتوں میں جو فریق بھی چاہے اس تحکیم کو فسخ کر سکتا ہے، اور یہ فسخ کرنے کا حق فیصلہ سنانے سے پہلے حاصل ہے۔"
(باب التحکیم ، ج:16، ص:467، ط:فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612101286
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن