بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سالی سے زنا کی صورت میں اپنی بیوی کے نکاح کا حکم


سوال

 ایک شخص نے اپنی سالی سے ناجائز تعلقات قائم کیے جس سے ابھی آٹھ دن پہلے ایک بیٹا ہوا ہے۔ اب اس (شخص) کا نکاح اپنی بیوی سے  قائم ہے یا نہیں؟ کیا اب اس بچے کو اس کی ماں سے دور رکھنا معاشرے کی خاطر صحیح ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سالی کے ساتھ زنا کرنا انتہائی قبیح فعل اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب ہے،  اس پر صدق دل سے خوب توبہ واستغفار لازم ہے، شریعت نے غیر محارم سے پردے کا حکم اسی لیے دیا ہے  کہ اس طرح کے فواحش کا سدِّ باب ہوسکے، تاہم اس کے باوجوداس شخص کااپنی  بیوی سے  نکاح نہیں ٹوٹتا، زنا کرنے والے کا اپنی بیوی سے نکاح بدستور قائم رہے گا،  لیکن اس کے  لیے آئندہ سالی سے پردہ کا خوب اہتمام کرنا ضروری ہے؛ تاکہ دوبارہ اس کی نوبت نہ آئے۔  زنا کرنے والے شخص کے لیے سالی کےاستبراء یعنی (اس ہم بستری کے بعد) ایک حیض گزرنے تک یا حاملہ ہونے  کی صورت میں وضعِ حمل تک اپنی بیوی سے ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے۔

نیز مذکورہ بچے کا تو اس گناہ میں کوئی قصور نہیں ہے، لہذا اس بچے کو اس کی ماں سے دور کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک گناہ کو چھپانے کے لیے مزید گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اور سالی کے غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس بچے کا نسب بھی اس کی ماں  (یعنی: مزنیہ) سے ثابت ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته لاتحرم عليه امرأته.

(قوله: وفي الخلاصة إلخ) هذا محترز التقييد بالأصول والفروع وقوله: لايحرم أي لاتثبت حرمة المصاهرة، فالمعنى: لاتحرم حرمة مؤبدة، وإلا فتحرم إلى انقضاء عدة الموطوءة لو بشبهة، قال في البحر: لو وطئ أخت امرأة بشبهة تحرم امرأته ما لم تنقض عدة ذات الشبهة، وفي الدراية عن الكامل: لو زنى بإحدى الأختين لايقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضةً."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات،ج: 3 صفحہ: 34، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں