بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سالی کو دیکھ کر غلط خیالات آنے سے نکاح نہیں ٹوٹتا


سوال

 ہم ایک جوانٔٹ فیملی میں رہتے ہیں، میری بھابھی میری سالی بھی لگتی ہے،میں نے سنا ہے کہ اگر ایسے رشتے کے ساتھ اگر شہوت سے ہاتھ لگایا جاۓ تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے، دو سے تین دن پہلے میری نظر اچانک میری بھابھی پر پڑی، جو میری سالی بھی لگتی ہے اور ذہن میں خیالات آۓ تو میں نے فوراً نظر ہٹالی؛ لیکن اب میں اس وقت  سے پریشان ہوں، میں اپنے بھتیجے کو بھی اٹھاؤں تب بھی ذہن میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ کہیں کسی غلط نیت سے تو نہیں کر رہا، براہ مہربانی ،رہ نمائی  فرمائیں کہ کیا کرنے سے اور کس طرح کرنے سے نکاح پر اثر ہوتا ہے کیا ذہن میں خیالات آنے سے بھی نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

اب تو میں گھر میں آنکھ اٹھانے سے بھی ڈرتا ہوں، نہ بھتیجے کو اٹھاتا ہوں ، بھتیجے اور اس کی والدہ دونوں کےلیےمیں ہر وقت انہیں سوچوں میں رہتا ہوں کہ غلط نیت تو نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطهرہ میں جس طرح زنا کو گناہ گبیرہ قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے،اسی طرح ز نا کےسبب کے طور پر غیر محرم عورت کی طرف دیکھنے سےبھی منع کیا گیا ہے،  چنانچہ  ارشاد باری تعالٰی ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً  ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا  [الإسراء:32]

"اور زنا کے پاس بھی مت بھٹکو،بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے"(از بیان القرآن)

یہی وجہ ہے کہ  شریعت مطہرہ نے اجنبی عورتوں سے پردے کا حکم دیا ہے تاکہ زنا  كےاسباب کا دروازہ ہی بند ہوجائے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ اپنے گھر میں  پردے کا خوب اہتمام کرائے، اور سائل کی بھابھی جو سائل کی سالی بھی لگتی ہے وہ بھی سائل سے پردہ کرے ،اور اگر اتفاقی طور پرغلطی سےآپس میں  نظر پڑ جائے تو سائل فورا اپنی نظر اور دھيان اس طرف سے ہٹالے ،نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر اپنی سالی پر نظر پڑجائے اگر چہ برے خیال سے ہی کیوں نہ ہو تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا،البتہ بد نظری کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔

جہاں تک بھتیجے کو گود میں لینے سے غلط خیالات آتے ہیں تو سائل اس کی طرف توجہ نہ کرے تو خود بخود ان شاء اللہ مذکورہ خیالات ختم ہوجائيں گے۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « كتب على ابن آدم نصيبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة، فالعينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج ويكذبه ."

(كتاب القدر،باب قدر علي ابن آدم حظه من الزنا وغيره،8/ 52 ،ط:دار الطباعة العامرة)

الدر المختار میں ہے:

"(و) ينظر (من الأجنبية) ولو كافرة مجتبى (إلى وجهها وكفيها فقط) للضرورة قيل والقدم والذراع إذا أجرت نفسها للخبز تتارخانية. وعبدها كالأجنبي معها) فينظر لوجهها وكفيها فقط. نعم يدخل عليها بلا إذنها إجماعا، ولا يسافر بها إجماعا خلاصة وعند الشافعي ومالك ينظر كمحرمه (فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره (إلا) النظر لا المس (لحاجة)..."

 (كتاب الحظر والإباحة،6/ 369،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں