بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سالی کا اپنے بہنوئی کے ساتھ حج کا سفر کرنا


سوال

 1۔کیا کوئی آدمی حج پر جاتے ہوئے اپنی بیوی کے ساتھ اپنی سالی کو لے جا سکتا ہے؟

2۔سعودی حکومت نے حج و عمرہ پر آنے کے لیے عورت کو محرم کے بغیر آنے کی اجازت دی ہے، وہ کس بنیاد پے دی ہے؟ اور اس معاملے میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے حج پر جانے کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ مکہ مکرمہ سے مسافتِ سفر کی مقدار دور ہوں تو ان کے ساتھ شوہر یا دیگر کسی محرم کا ہونا ضروری ہے، محرم کے بغیر سفر کرنا عورتوں کے لیے ناجائز اور حرام ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، کسی بھی حالت میں جانا جائز نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ اگر وہ مالدار ہے اور اس کا شوہر یا کوئی محرم نہیں ہے یا محرم ہے مگر محرم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی تو اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ انتظار کرتی رہے، تاآنکہ محرم کا بندوبست ہوجائے یا محرم کے اخراجات کا بندوبست ہوجائے؛اس لیے کہ عورت کے لیے محرم ہونا اور محرم کا اس کے ساتھ جانا شرطِ وجوب میں سے ہے، اگر زندگی بھر محرم کا بندوبست نہ ہوسکے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مرنے سے قبل حج بدل کی وصیت کرجائے، تاکہ لواحقین حج بدل کرسکیں،   لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سالی کے لیے اس کا بہنوئی نامحرم ہے، اس لیے اس کا اپنے بہنوئی کے ساتھ کوئی بھی سفر کرنا خواہ حج کا سفر ہو درست نہیں ہے اگرچہ اس کی بہن بھی ساتھ ہو۔

باقی  اگر سعودی حکومت نے خواتین کو محرم کے بغیر حج و عمرے کا سفر کرنے کی اجازت دی ہے تو سعودی حکومت کے قوانین شرعی مسئلہ کے لیے دلیل نہیں ہیں، اس لیے حکومت کی جانب سے محرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت ہونے کی صورت میں بھی محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہوگا، اور  کوئی بھی حکومت شریعت کے حکم کو بدل نہیں سکتی، لہٰذا شرعی حکم اپنی جگہ پر برقرار رہے گا، اور  عورت کے لیے محر م کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں، اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔

 بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذی یخص النساء فشرطان: أحدہما أن یکون معہا زوجہا أو محرم لہا فان لم یوجد أحدہما لایجب علیہا الحج وہذا عندنا، وعند الشافعیؒ ہٰذا لیس بشرط ویلزمہا الحج والخروج من غیر زوج ولامحرم إذا کان معہا نساء فی الرفقۃ ثقات واحتج بظاہر قولہٖ تعالٰی: ’’وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘ وخطاب الناس یتناول الذکور والإناث بلاخلاف الخ۔ ولنا ما روی عن ابن عباسؓ عن النبی a أنہٗ قال:’’ ألا لاتحجن امرأۃ إلا ومعہا محرم‘‘ وعن النبی a أنہٗ قال: ’’لا تسافر امرأۃٌ ثلاثۃَ أیام إلا ومعہا محرم أو زوج‘‘ ولأنہا إذا لم یکن معہا زوج ولا محرم لایؤمن علیہا إذا النساء لحم علی وضم إلا ماذب عنہ ولہذا لایجوز لہا الخروج وحدہا والخوف عند اجتماعہن أکثر ولہذا حرمت الخلوۃ بالأجنبیۃ وإن کان معہا امرأۃ أخریٰ والآیۃ لاتتناول النسائَ حالَ عدم الزوج والمحرم معہا لأن المرأۃَ لم تقدر علی الرکوب والنزول بنفسہا."

(کتاب الحج، ج:2، ص:123، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"منہا المحرم للمرأۃ شابۃً کانت أو عجوزًا إذا کانت بینہا وبین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ أیام...ثم تكلموا أن أمن الطريق وسلامة البدن - على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ووجود المحرم للمرأة شرط لوجوب الحج أم لأدائه، بعضهم جعلوها شرطا للوجوب وبعضهم شرطا للأداء، وهو الصحيح وثمرة الخلاف فيما إذا مات قبل الحج فعلى قول الأولين لا تلزمه الوصية وعلى قول الآخرين تلزمه كذا في النهاية"

 

(كتاب الحج، ج:1،ص:219، ط: رشيدية)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال: حج کے سفر کے لیے بیوی مستورات کس کس رشتہ دار کے ساتھ سفرِ حج کر سکتی ہے؟ شوہر کی بہن(یعنی نند) اور اس کا شوہر کیا اس کے ساتھ سفرِ حج کر سکتی ہیں؟

جواب: عورت کو اپنے محرم(باپ، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ) اور اپنے شوہر کے ساتھ سفرِ حج میں جانا چاہیے، بغیر ان کے بہنوئی، نندوئی وغیرہ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں، اگرچہ ان کے ساتھ بہن اور نند وغیرہ بھی ہوں۔"

(کتاب الحج، باب اشتراط المحرم للمرأۃ، ج:22، ص:410، ط: ادارۃ الفاروق)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"سوال: اگر بہنوئی کے ساتھ حج یا کسی اور ایسے سفر پر جہاں محرم کے ساتھ جانا ہوتا ہے، جا سکتے ہیں یا نہیں؟ جب کہ بہن بھی ساتھ جارہی ہو۔

جواب:بہنوئی کے ساتھ سفر کرنا شرعاً درست نہیں۔

"ایک دوسرے سوال کے جواب میں لکھا ہے: محرم وہ ہے جس نکاح کسی حال میں بھی جائز نہ ہو، سالی محرم نہیں، چنانچہ اگر شوہر بیوی کو طلاق دیدے یا بیوی کا انتقال ہوجائے تو سالی کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے، اور نا محرم کو ساتھ لے جانے سے حاجی مجرم بن جاتا ہے۔"

(بغیر محرم کے حج، ج:5، ص:302، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410100643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں