بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سالگرہ، منگنی،،بیبی شاور برائیڈل شاوروغیرہ کی تقریبات کے انتظامات میں سرمایہ کاری کا حکم


سوال

 کیا میں سالگرہ کی تقریبات ،منگنی کی تقریبات ،بیبی شاور برائیڈل شاور ،عقیقہ روزہ خوشی کی سجاوٹ کے لیے استعمال ہونے والی انوینٹری میں رقم لگاؤں تو کیا کمایا ہوا منافع حلال ہو گا؟ مطلب  کوئی غیر اسلامی خوشی کی  تقریب ہو  جیسا کہ سالگرہ اور منگنی کی تقریب، زیادہ تر برتھ ڈے پارٹیاں بہت ہیں، آمدنی حلال ہے یا نہیں، بنیادی طور پر انویسٹمنٹ پارٹی کی ڈیکوریشن کے آئٹمز پر ہورہے ہیں جیسا کا اسٹیج، ہال ہاؤس ،ٹیبل سیٹنگ غبارے وغیرہ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بالاتمام تقریبات میں  ناجائز امور    جیسے تصویر کشی،موسیقی، ناچ گانے، بے پردگی اور مردوزن کے  اختلاط وغیرہ کا ارتکاب  کیا جاتاہوتوپھر یہ تمام امور ناجائز ہوں گے، ان میں شرکت کرنا  اور ان کی انوینٹری میں رقم لگا نا اور اس پر نفع کمانا سب ناجائز ہیں  ،لیکن اگر مذکورہ منکرات میں سے  کسی کا ارتکاب نہ کیا جاتاہو توپھر ایسی صورت میں  مذکورہ پروگراموں کے انتظام کے لیے رقم لگاکر اس پر نفع کمانا  حرام تو نہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ سالگرہ کی تقریبات،بیبی شاور اور  برائیڈل شاور  وغیرہ  کی تمام رسمیں  مغربی معاشرہ سے درآمد شدہ ہے، جس کا اہتمام  غیروں کی مشابہت اور نقالی  کے ساتھ ساتھ  مسلم معاشرے  کو  اپنی   دینی تعلیمات  اور اپنے  پیغمرﷺ کے مبارک سنتوں سے دورکر ناہے،لہٰذا اس قسم کی تقریبات میں مدد کرنے کی بجائے، ان کے  ترک کرنے اور ان کی سخت حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے، اس لیے صورتِ مسئولہ میں ذکرکردہ  اس قسم کی رسموں سے  مکمل لاتعلق رہنے میں عافیت ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله."

 (باب التصاویر، ج:2، ص:385، ط: قدیمي)

العنایہ فی شرح الہدایہ میں ہے:

"(و لايجوز الاستئجار على سائر الملاهي لأنه استئجار على المعصية و المعصية لاتستحق بالعقد) فإنه لو استحقت به لكان وجوب ما يستحق المرء به عقابًا مضافًا إلى الشرع و هو باطل."

(ج:9، ص: 98، ط:دارالفکربیروت)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

’’و في المنتقى إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالا، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: على شرط إن شرطوا لها في أوله مالا بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء و هذا لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية و السبيل في المعاصي ردها و ذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصية و الدفع حصل من المالك برضاه فيكون له و يكون حلالا له.‘‘

(ج:5، ص:349، ط:دارالفكر)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144508102466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں