بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سلیپنگ پارٹنر/ ورکنگ پارٹنر کی شرعی حیثیت


سوال

ہم لوگ سٹی گروپ آف کمپنیز کے نام سے جوتوں کا کام کرتے ہیں،جیسے باٹا،سروس وغیرہ،اس کی تفصیل یہ ہے کہ کچھ لوگ ہم سے مال خرید  کراپنی دکانوں یا مارکیٹ میں خود فروخت کرتے ہیں،اور کچھ سلیپنگ پاٹنر کے طور پر سرمایہ کاری کرتے ہیں،ہم ان کے اس سرمایہ سے کام کرکے منافع دیتے ہیں ،منافع کی شرح متعین نہیں ہوتی منافع کی شرح آٹھ سے بارہ فیصد کے درمیان ہوتی ہے،زیادہ فروخت پر زیادہ نفع اور کم فروخت پر کم  نفع،کمپنی کا معاہدہ اٹھارہ ماہ کا ہوتا ہے،اگر کوئی شخص اپنی رقم واپس لینا چاہے تو اس کو ایک ماہ پہلے تحریری طور پراطلاع دینی ہوتی ہے،رقم اٹھارہ ماہ بعد ہی ملتی ہے،اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کا کاروبار کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟نیز سلیپنگ پاٹنر اور ورکنگ پاٹنر کی کیا حیثیت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کاروبار کی جو صورت بیان کی گئی ہے اس کو شریعت کی اصطلاح میں "مضاربت " کہتے ہیں،جس میں ایک فرد کا سرمایہ ہوتا ہے جس کو  شرعی اصطلاح میں رب المال (سلیپنگ پاٹنر) کہتے ہیں،اور دوسرے فرد کی محنت ہوتی ہے جس کو مضارب(ورکنگ پاٹنر)کہتے ہیں،مضاربت کے بنیادی اصول وشرائط  درج ذیل ہیں:

 (1)  مضاربت میں سرمایہ کا نقدی ہونا ضروری ہے، اگر سرمایہ سامان، قرض یا جامد اثاثوں کی شکل میں ہوگا تو مضاربت صحیح نہیں ہوگی۔
(2)  عقدِ مضاربت کے وقت سرمایہ کا اس طور پر معلوم ہونا ضروری ہے کہ بعد میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، یعنی رب المال مضارب کو سرمایہ پر قبضہ کرادے  یا اس کی طرف اشارہ کردے۔
(3) عقدِ مضاربت میں سرمایہ مکمل طور پر مضارب کے حوالہ کرنا ضروری ہے، اس طور پر کہ پھر اس سرمایہ میں رب المال کا کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہ رہے، اسی طرح رب المال کوئی کام بھی نہیں کرے گا، بلکہ کا م صرف مضارب ہی کرے گا، اگر رب المال پر بھی کام کی شرط  لگائی گئی تو مضاربت فاسدہو جائے گی۔
(4) عقدِ مضاربت میں منافع کی تقسیم حقیقی نفع کے تناسب سے طے کی جانی ضروری ہے، اگر کسی ایک کے لیے معین رقم یا سرمایہ کے تناسب سے پہلے سے نفع طے کرلیا (یعنی کل سرمایہ کا اتنا فیصد ملے گا) تو مضاربت جائز نہیں ہوگی۔
(5) مضارب کو صرف حاصل شدہ نفع میں سے ہی حصہ ملے گا،نیز منافع کی تقسیم حصوں کے اعتبار سے ہو،یعنی نفع کے اتنے حصے مضارب(عامل) کے ہیں اور اتنے حصے رب المال (سرمایہ دار) کے ہیں،یا نفع کی تقسیم شرح فیصد کے اعتبار سے ہو شرح فیصد متعین ہو مجہول نہ ہو،اگر نفع کی شرح فیصد متعین نہیں ہوگی تو مضاربت فاسدہ ہوگی۔
(6) اگر مضارب کے لیے اصل سرمایہ میں سے کچھ مشروط کیا گیا تو مضاربت فاسد ہو جائے گی۔
(7)  اگر نقصان ہوگیا تواس کو پہلے حاصل شدہ نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر اس سے بڑھ گیا تو وہ رب المال کے ذمہ ہوگا بشرطیکہ وہ نقصان مضارب کی غفلت اور تعدی کی وجہ سے نہ ہوا ہو،اور اس نقصان کو اولاًاصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا، مضارب کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں، بلکہ نقصان کی صورت میں سرمایہ دار نقصان برداشت کرے گا اور مضارب کی محنت رائیگاں جائے  گی،  مضارب امین کی حیثیت سے کام کرے گا۔

(8 ) مضاربہ میں سرمایہ اور کاروبار حلال ہو، معاملہ میں کوئی شرطِ فاسد نہ ہو۔

ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھ کر مضاربت کا کاروبارکرنا ضروری ہے،مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی کی طرف سے مضاربت میں نفع  کی شرح فیصد غیرمتعین  ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہےہر شریک کا نفع  (حاصل شدہ نفع کی) شرح فیصد کے اعتبارسے متعین ہونا ضروری ہے،لہذاسائل کو چاہیے کہ اپنی کمپنی کے کاروبار کو شرعی اصولوں کے مطابق درست کریں؛ تاکہ یہ کارو بار ان کے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ بن سکے،اور کاروبار شرعی شرائط کے مطابق،شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو،یعنی سرمایہ دار سے یہ معاہدہ کریں کہ آپ کی رقم سے کاروبار کرکے جو نفع ہوگا اس نفع کا اتنا فیصد آپ کو اور اتنا فیصد ہمیں ملے گا،پھر کاروبار کرنے کے بعد اخراجات نکال کر جو نفع ہوگا اس کو معاہدہ کے مطابق تقسیم  کیا جائے،تو مضاربت درست ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي. فلو قبض المضارب المال على هذا الشرط فربح أو وضع أو هلك المال بعد ما قبضه المضارب قبل أن يعمل به كان الربح للمضارب والوضيعة والهالك عليها كذا في المحيط."

(كتاب المضاربة،الباب الاول في تفسير الضاربة،285/4،ط:رشيدىة)

الاختيار لتعليل المختار ميں ہے:

"ولا تصح إلا أن يكون الربح بينهما مشاعا، ‌فإن ‌شرط ‌لأحدهما ‌دراهم ‌مسماة ‌فسدت، والربح لرب المال، وللمضارب أجر مثله، واشتراط الوضيعة على المضارب باطل، ولا بد أن يكون المال مسلما إلى المضارب."

(كتاب المضاربة،20/3،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها.قوله: في الربح) كما إذا شرط له نصف الربح أو ثلثه بأو الترديدية س (قوله فيه) كما لو شرط لأحدهما دراهم مسماة."

(كتاب المضاربة،شرائط المضاربة،648/5ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں