بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صلوۃ التسبیح کا طریقہ کار


سوال

صلوۃ التسبیح کا درست طریقہ عنایت فرمادیں۔

جواب

نفل نمازوں میں ’’صلاۃ التسبیح‘‘  بڑی اہم اور فضیلت والی نماز ہے۔ آپ ﷺنے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو یہ نماز بڑی تاکید کے بعد بطورِ تحفہ سکھائی تھی۔ امام حاکم نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر یہ دلیل ہے کہ تبع تابعین کے زمانہ سے ہمارے  زمانہ تک مقتدا حضرات اس پر مداومت کرتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہیں، جن میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں۔ یہ چار رکعات والی نفل نماز ہے، جس میں بقیہ اعمال تو حسبِ معمول ہیں، البتہ ہررکعت میں پچھتر مرتبہ اضافی تسبیحات پڑھی جاتی ہیں، یوں چار رکعات میں تین سو مرتبہ اضافی تسبیحات ہوتی ہیں، اس کے پڑھنے کے دو طریقے ہیں:

پہلا طریقہ:

۱۔۔۔ نیت :چار رکعت صلاۃ التسبیح کی نماز پڑھ رہا ہوں،’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور حسبِ معمول ثناء پڑھے ، ثناء یہ ہے:
’’ سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ، وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ‘‘
پھر"أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ اوربِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ "پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے:
’’ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘
۲...رکوع میں جانے کے بعد حسبِ معمول تین مرتبہ’’ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ‘‘ پڑھے، پھر دس مرتبہ مذکورہ بالا تسبیح پڑھے، اس کے بعد رکوع سے اٹھے۔
۳...رکوع سےاٹھتے ہوئے پہلے حسبِ معمول’’سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه‘‘ کہے اور کھڑا ہو کر’’ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد‘‘کہے، پھرکھڑے کھڑے دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے۔
۴... پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور حسبِ معمول ’’ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلیٰ‘‘ تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے، اس کے بعد ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘  کہہ کر سجدے سے اٹھے۔
۵... سجدے سے اٹھ کر بیٹھے اور بیٹھے بیٹھے دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے پھر’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘  کہہ کر دوسرے سجدے میں جائے۔
۶... دوسرے سجدے میں بھی  حسبِ معمول پہلے ’’ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلیٰ‘‘  تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے۔
۷...دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ  کرمذکورہ بالا تسبیح دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔
اس طرح ایک رکعت میں پچھتر(۷۵) مرتبہ یہ تسبیحات پڑھی گئیں، اسی طرح باقی تین رکعتیں بھی پڑھ لے۔یوں چار رکعتوں میں کل تین سو تسبیحات ہو جائیں گی، دوسری اور چوتھی رکعت کے قعدے میں یہ تسبیحات التحیات پڑھنے کے بعد پڑھے۔

دوسرا طریقہ :

حضرت عبد اللہ بن مبار ک رحمہ اللہ سے ایک اور طریقہ بھی ثابت ہے،وہ طریقہ یہ ہے:
’’ نیت باندھنے کے بعد ثناءپڑھے اور اس کے بعد پندرہ مرتبہ مذکورہ تسبیحات پڑھے پھراعوذ باللہ، بسم اللہ ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ان تسبیحات کو دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسرے سجدے تک دس دس مرتبہ پڑھتا رہے، دوسرے سجدے سے اٹھتے ہوئے ان تسبیحات کو نہ پڑھے، بلکہ سجدے سے براہ راست ’’الله أکبر‘‘  کہتاہوا سیدھا کھڑا ہوجائے، کیوں کہ اس طریقے کے مطابق دوسرے سجدے میں دس مرتبہ مذکورہ تسبیحات پڑھنے کے بعد تسبیحات کی تعداد پچھتر ہوجائے گی۔

بعض علماءکرام  دوسرے طریقے کو افضل کہتے ہیں، اور وجہ فضیلت یہ بیان فرماتے ہیں کہ چوں کہ پہلے طریقے میں جلسہ استراحت کی ضرورت پڑتی ہے، اور ہمارے ہاں جلسہ استراحت راجح نہیں؛ اس لیے وہ طریقہ افضل ہے جس میں جلسہ استراحت موجود نہیں، لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان دونوں طریقوں سے ہی صلاۃ التسبیح پڑھنی چاہیے کبھی پہلے طریقے سے،کبھی دوسرے طریقے سے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم میں ہے :

' حدثناه أبو علي الحسين بن علي الحافظ إملاء من أصل كتابه، ثنا أحمد بن داود بن عبد الغفار بمصر، ثنا إسحاق بن كامل، ثنا إدريس بن يحيى، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبيب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن أبي طالب إلى بلاد الحبشة، فلما قدم اعتنقه وقبل بين عينيه، ثم قال: «ألا أهب لك، ألا أبشرك، ألا أمنحك، ألا أتحفك؟» قال: نعم، يا رسول الله. قال: " تصلي أربع ركعات تقرأ في كل ركعة بالحمد وسورة، ثم تقول بعد القراءة وأنت قائم قبل الركوع: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله خمس عشرة مرةً، ثم تركع فتقولهن عشراً تمام هذه الركعة قبل أن تبتدئ بالركعة الثانية، تفعل في الثلاث ركعات كما وصفت لك حتى تتم أربع ركعات۔ «هذا إسناد صحيح لاغبار عليه، ومما يستدل به على صحة هذا الحديث استعمال الأئمة من أتباع التابعين إلى عصرنا هذا إياه ومواظبتهم عليه وتعليمهن الناس، منهم عبد الله بن المبارك رحمة الله عليه»'۔"

قال الذهبي: أخرجه أبو داود والنسائي، وابن خزيمة في الصحيح ثلاثتهم عن عبد الرحمن بن بشر."

 (كتاب الوتر ،‌‌فأما حديث عبد الله بن فروخ «فإن لفظه عجب، وهو شيخ من أهل مكة صدوق، سكن مصر وبها مات،1/ 464،ط:دارالكتب العلمية)

مشکاۃ شریف میں ہے :

"' صلاة التسبیح عن ابن عباسؓ أن النبي ﷺ قال للعباس بن عبدالمطلب: یا عباس، یا عماه، ألا أعطیک! ألا أمنحک! ألا أخبرک! ألا أفعل بک عشر خصال! إذا أنت فعلت ذلک غفراﷲ لک ذنبک : أوله وآخره، قدیمه وحدیثه، خطأه وعمده، صغیره وکبیره، سره وعلانیته، أن تصلی أربع رکعات تقرء في کل رکعة فاتحة الکتاب وسورة، فإذا فرغت من القراء ة في أول رکعة وأنت قائم، قلت: سبحان اﷲ والحمد ﷲ ولا إله إلا اﷲ واﷲ أکبر خمس عشرة مرةً، ثم ترکع فتقولها وأنت راکع عشراً، ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولها عشراً، ثم تهوي ساجداً فتقولها وأنت ساجد عشراً، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولها عشراً، ثم تسجد فتقولها عشرا، ثم ترفع رأسک فتقولها عشراً، فذلک خمس وسبعون في کل رکعة، تفعل ذلک في أربع رکعات، إن استطعت أن تصلیها في کل یوم مرةً فافعل۔۔۔ ' الخ۔

وفي مرقاة المفاتیح:

' وینبغي للمتعبد أن یعمل بحدیث ابن عباس تارةً، ویعمل بحدیث ابن مبارک أخری' ۔"

(کتاب الصلوۃ،‌‌باب صلاة التسبيح،ج:1،ص:418،ط:المتب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے :

" وأربع صلاة التسبيح بثلاثمائة تسبيحة، وفضلها عظيم.

(قوله: وأربع صلاة التسبيح إلخ) يفعلها في كل وقت لا كراهة فيه، أو في كل يوم أو ليلة مرةً، وإلا ففي كل أسبوع أو جمعة أو شهر أو العمر، وحديثها حسن ؛ لكثرة طرقه. ووهم من زعم وضعه، وفيها ثواب لا يتناهى، ومن ثم قال بعض المحققين: لايسمع بعظيم فضلها ويتركها إلا متهاون بالدين، والطعن في ندبها بأن فيها تغييراً لنظم الصلاة إنما يأتي على ضعف حديثها، فإذا ارتقى إلى درجة الحسن أثبتها وإن كان فيها ذلك، وهي أربع بتسليمة أو تسليمتين، يقول فيها ثلثمائة مرة: «سبحان الله، والحمد لله ولا إله إلا الله، والله أكبر»، وفي رواية زيادة «ولا حول ولا قوة إلا بالله»، يقول ذلك في كل ركعة خمسة وسبعين مرة ؛ فبعد الثناء خمسة عشر، ثم بعد القراء ة وفي ركوعه، والرفع منه، وكل من السجدتين، وفي الجلسة بينهما عشراً عشراً بعد تسبيح الركوع والسجود، وهذه الكيفية هي التي رواها الترمذي في جامعه عن عبد الله بن المبارك أحد أصحاب أبي حنيفة الذي شاركه في العلم والزهد والورع، وعليها اقتصر في القنية وقال: إنها المختار من الروايتين. والرواية الثانية: أن يقتصر في القيام على خمسة عشر مرةً بعد القراءة، والعشرة الباقية يأتي بها بعد الرفع من السجدة الثانية، واقتصر عليها في الحاوي القدسي والحلية والبحر، وحديثها أشهر، لكن قال في شرح المنية: إن الصفة التي ذكرها ابن المبارك هي التي ذكرها في مختصر البحر، وهي الموافقة لمذهبنا ؛ لعدم الاحتياج فيها إلى جلسة الاستراحة ؛ إذ هي مكروهة عندنا. اهـ. قلت: ولعله اختارها في القنية لهذا، لكن علمت أن ثبوت حديثها يثبتها وإن كان فيها ذلك، فالذي ينبغي فعل هذه مرةً وهذه مرةً.

[تتمة] قيل لابن عباس: هل تعلم لهذه الصلاة سورة؟ قال: التكاثر والعصر والكافرون والإخلاص. وقال بعضهم: الأفضل نحو الحديد والحشر والصف والتغابن ؛ للمناسبة في الاسم."

(کتاب الصلوۃ،2/ 27،ط:سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144508100386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں