بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صلاۃ الاوابین کا وقت


سوال

آپ کے مطابق نماز اوابین کا وقت نماز مغرب کے بعد ہے جبکہ حدیث کے مطابق نماز اوابین کا وقت اشراق کے بعد اور زوال سے پہلے آیا ہے۔ رہنمائی فرما دیں کہ ہم کس کو مانیں۔ اگر آپکی بات ماننی ہے تو حوالہ دے دیں اگر حدیث کو ماننا ہے تو یہاں درستگی فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ" صلاۃ الاوابین" کا مطلب ہے بکثرت اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں اور توبہ کرنے والوں کی نماز ۔احادیث مبارکہ میں صلاۃ الاوابین چاشت کی نماز کو بھی کہا گیا ہے اور مغرب کے بعد کی نوافل کو بھی کہا گیا ہے۔ جس کی بکثرت فضیلت احادیث مبارکہ میں وارد ہے ۔لہذا جیسا کہ مشہور ہے کہ مغرب کے بعد کے نوافل اوابین کہلاتے ہیں یہ غلط نہیں۔ نیزآپ کا کہنا کہ" ہم آپ کی مانیں یا حدیث کی" تو یہ مناسب الفاظ نہیں ہوتے ۔علماء فقہاء قران و سنت کی روشنی میں ہی احکام بیان کرتے ہیں ۔حوالے درج ذیل ہیں:

  روایت  میں ہے:

"أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: حَدَّثَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ إِلَى صَلَاةِ الْعِشَاءِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ» ."

ترجمہ:"حضرت محمد بن المنکدر رحمہ اللّٰہ سے مرسلا روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان نفل نماز پڑھی، تو وہ نماز اوابین ہے۔ (یعنی اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز ہے)۔"

(الزهد والرقائق لابن المبارك: 1/   445ط: بیروت)

 نیز  مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما کی ایک روایت  ہے:

"عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ مَابَیْنَ اَنْ یَّنْکَفِتَ اَھْلُ الْمَغْرِبِ اِلٰی اَنْ یُّثَوَّبَ اِلَی الْعِشَاء."

(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص266،267 ط: بیروت)

ترجمہ:"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’صلوۃ الاوابین‘‘ کا وقت اس وقت سے ہے کہ جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ ہوں اور یہ وقت عشاء کا وقت  بلائے جانے  تک رہتا ہے۔"

 شرح السنۃ میں ہے:

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ اِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ لَتَحُفُّ بِالَّذِیْنَ یُصَلُّوْنَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ اِلَی الْعِشَاء وَھِیَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ."

(شرح السنۃ للبغوی ج 2ص439 ط: بیروت)

ترجمہ:"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرشتے ضرور  ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں، جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ’’صلوۃ الاوابین‘‘ ہے۔"

مغرب کی نماز کے بعد ادا کی جانے والی نفل نماز کی فضیلت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ: ’’جو شخص نماز مغرب کے بعد  چھ رکعات (اوابین کی نماز) پڑھے گا، اور ان کے درمیان کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے گا تو یہ چھ رکعات ثواب میں اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار  پائیں گی‘‘۔

جناب رسول اللہ ا کا ارشاد مبارک ہے کہ: ’’جو شخص نماز مغرب کے بعد چھ رکعات (اوابین کی نماز) پڑھے گا، اور ان کے درمیان کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے گا تو یہ چھ رکعات ثواب میں اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار پائیں گے۔

  نیز  فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ چاشت کی نماز کا افضل وقت، اس کے مکمل وقت کا آخری چوتھائی ہے، یعنی سورج طلوع ہو کر جب ایک نیزہ بلند ہوجائے تو چاشت کا وقت شروع ہوجاتاہے، اور زوال تک چاشت کا وقت رہتاہے، اس مکمل وقت کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آخری چوتھائی وقت جس میں سورج کی تمازت بڑھ جاتی ہے، اس وقت اوابین کی نماز کا وقت ہے، اور اس وقت میں چاشت کی نماز کی فضیلت زیادہ ہے۔اور چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت ہے، بہتر چار رکعات ہیں، رسول اللہ ﷺ سے آٹھ رکعات تک ادا کرنا منقول ہے۔

سنن الترمذي میں ہے :

"عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً»".

(سنن الترمذي ،ت شاكرکتاب الصلاۃ 2/ 299 ط: بیروت)

سنن ابن ماجه میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم بينهن بسوء، عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنة".

(سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط ، کتاب الصلاۃ ط:بیروت2/ 243)

شامی میں ہے:

"(وست بعد المغرب) ليكتب من الأوابين (بتسليمة) أو ثنتين أو ثلاث والأول أدوم وأشق وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدى الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم.

(قوله: بتسليمة أو ثنتين أو ثلاث) جزم بالأول في الدرر، وبالثاني في الغزنوية، وبالثالث في التجنيس كما في الإمداد، لكن الذي في الغزنوية مثل ما في التجنيس، وكذا في شرح درر البحار. وأفاد الخير الرملي في وجه ذلك  أنها لما زادت عن الأربع وكان جمعها بتسليمة واحدة خلاف الأفضل، لما تقرر أن الأفضل رباع عند أبي حنيفة؛ ولو سلم على رأس الأربع لزم أن يسلم في الشفع الثالث على رأس الركعتين، فيكون فيه مخالفة من هذه الحيثية، فكان المستحب فيه ثلاث تسليمات ليكون على نسق واحد. قال: هذا ما ظهر لي، ولم أره لغيري". 

 (رد المحتار،  کتاب الصلاۃ  2/ 13 ، ط: سعید)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں