اگر کوئی ایسی صورتِ حال ہو جائے کہ صلاۃالتسبیح باجماعت ادا کی جائے، مگر اس کے لیے کسی کو دعوت نہ دی گئی ہو تو کیا جماعت کرانا درست ہے؟
واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سوج گرہن کے وقت صلاۃ الکسوف، صلاۃ الاستسقاء اور تراویح کے علاوہ کسی بھی نفل نماز کی جماعت کے ساتھ ادائیگی جب کہ مقتدی چار یا چار سے زیادہ ہوں مکروہ ہے، تین افراد کی جماعت میں نوافل کی ادائیگی کے مکروہ ہونے نا ہونے میں اختلاف ہے، جب کہ دو افراد کا جماعت کے ساتھ نوافل ادا کرنا جائز ہے، پس صورتِ مسئولہ میں چار یا چار سے زیادہ مقتدی ہونے کی صورت میں نفل نماز کی باجماعت ادائیگی مکروہ ہے، خواہ اس کے لیے اعلان نہ کیا جائے، اور اگر مذکورہ جماعت میں چار سے کم افراد تھے تو اس میں کراہت نہیں ہے۔
حلبی کبیر میں ہے:
"واعلم أن النفل بالجماعة علی سبيل التداعي مكروه". (تتمات من النوافل، ص: ٤٣٢، ط: سهيل اكيدمي)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
"( ولایصلی الوتر و) لا ( التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي؛ بأن يقتدي أربعة بواحد". (شامي، قبيل باب إدراك الفريضة، ٢/ ٤٨- ٤٩، ط: سعيد) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202692
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن