بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صلاۃ التسبیح کی جماعت/ معتکف کا پردہ کے اندر سے اقتدا کرنا/ پیشاب کے نالی میں تری محسوس ہونا


سوال

1- کیا صلاۃ التسبیح باجماعت ادا کی جاسکتے ہیں؟

2- معتکف اپنی جگہ سے باجماعت نماز میں شریک ہوسکتا ہے، جب کہ درمیان میں ایک پردہ ہو، جو پہلی صف کے ساتھ ہو؟

3- اگر کسی کو پیشاب کی نالی میں  گیلے پن کا احساس ہو، مگر قطروں کے گرنے کا ثبوت نہ ہو، مطلب کپڑوں پر کوئی گیلاپن نہ ہو تو اس صورت میں کیا وضو ٹوٹ جائے گا؟

جواب

1۔۔ صلاۃ التسبیح"  نفل نماز ہے اور نوافل جتنے بھی ہیں انہیں انفرادًا  ہی پڑھنے کا حکم ہے،  لہٰذا "صلاۃ التسبیح"  بھی آہستہ آواز سے  اکیلے ہی پڑھنی چاہیے نہ کہ جماعت کے ساتھ۔  باقاعدہ جماعت (تداعی ) کے ساتھ  (یعنی چار یا اس سے زیادہ مقتدی ہوں یا اعلانیہ ) "صلاۃ التسبیح"  پڑھنا   مکروہِ تحریمی  ہے۔

2۔۔ جماعت کے وقت اعتکاف کا پردہ اٹھاکر اوپر کردینا چاہیے؛ تاکہ اور بھی لوگوں کو جماعت میں شریک ہونے کی جگہ مل  سکے، تاہم پردہ نیچے ہو اور معتکف پردہ کے حائل کے ساتھ ہی اقتدا کرلے تو بھی نماز ادا ہوجائے گی، لیکن اگر صفیں معتکف تک متصل نہ ہوں تو درمیان میں فاصلہ ہونے کی وجہ سے کراہت ہوگی۔

3۔۔  وضو کے بعد   پیشاب کی نالی کے بالکل آخری سرے پر  پیشاب کا قطرہ اگر یقینی طور پر  ظاہر ہوجائے تو اس سے وضو  ٹوٹ جائے گا، اگر بالکل آخری سرے پر پیشاب کے قطرے ظاہر نہ ہوں، بلکہ صرف نالی کی اندرونی جانب تر ہو یا محض اس کا وسوسہ آتا ہو  تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔

اگر یقینی طور پر پیشاب کے قطرے نہ نکلتے ہوں تو پھر  ایک مرتبہ اچھی طرح اطمینان کرنے کے بعد شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، وضو کرکے نماز ادا کرلیں، اور شک کے ازالہ کا علاج یہ ہے کہ وضو سے فارغ ہو کر اپنا ہاتھ تر کر کے اپنی رُمالی پر چھینٹے مار لیا کریں، ان شاء اللہ شک سے خلاصی نصیب ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 135):

"ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة.  (قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لاينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال ط".

وفيه ايضا (1/ 148):

"(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل وإن متسفلة عنه لاينقض، وكذا الحكم في الدبر والفرج الداخل (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت؛ فإن رطبه انتقض، وإلا لا.  (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عالياً عن رأس الإحليل أو مساوياً له: أي ما كان خارجاً من رأسه زائداً عليه أو محاذياً لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلاً عن رأس الإحليل أي غائباً فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر.الذي في داخل القصبة (قوله: والفرج الداخل) أما لو احتشت في الفرج الخارج فابتل داخل الحشو انتقض، سواء نفذ البلل إلى خارج الحشو أو لا للتيقن بالخروج من الفرج الداخل وهو المعتبر في الانتقاض لأن الفرج الخارج بمنزلة القلفة، فكما ينتقض بما يخرج من قصبة الذكر إليها وإن لم يخرج منها كذلك بما يخرج من الفرج الداخل إلى الفرج الخارج وإن لم يخرج من الخارج اهـ شرح المنية (قوله: لاينقض) لعدم الخروج (قوله: ولو سقطت إلخ) أي لو خرجت القطنة من الإحليل رطبة انتقض لخروج النجاسة وإن قلت، وإن لم تكن رطبة أي ليس بها أثر للنجاسة أصلاً فلا نقض".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں