بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو مختلف شہروں میں رہائشی گھر اور گاؤں میں جائیداد، دکانیں اور رہائشی کمرہ ہونے کی صورت میں قصر و اتمام کا حکم


سوال

ہمارا رہائشی گھر سکردو میں ہےاور یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں، سکردو سے تقریباً 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہمارا آبائی گاؤں واقع ہے، جس میں ہماری جائے داد ہے، دکانیں اور ایک کمرہ رہنے کا ہے مگر رہائشی مکان نہیں ہے، سال میں صرف ہفتہ دس دن کے لیے وہاں جاتے ہیں، مستقبل میں بھی وہاں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اسلام آباد میں بھی ہمارا ایک گھر ہے، جس میں ہر سال ہم موسمِ سرما گزارتے ہیں۔ 

آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اگر ہم اپنے آبائی گاؤں یا اسلام آباد چلے جائیں تو مسافر شمار ہوں گے یا مقیم؟  

جواب

فقہاءِ کرام نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ جگہ جو انسان کی جائے ولادت ہو یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی ہو یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلی ہو۔ اس تعریف کی رو سےاگر کسی شخص کی دو یا دوسے زیادہ جگہوں پر عمر گزارنے کی نیت ہو کہ کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ، لیکن ان سے مستقل کوچ کرنے کی نیت نہ ہو یعنی اس جگہ سے نیت اور ارادہ کے ساتھ وطنیت ختم نہ کی ہو تو یہ ساری جگہیں اس کے لیے وطنِ اصلی ہیں۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں اسلام آباد آپ کے لیے وطن اصلی ہے، جہاں آپ مقیم شمار ہوں گے ، باقی رہا آبائی گاؤں تو اگر آپ وہاں سے مستقل کوچ کی نیت کرچکے ہوں یعنی اس جگہ سےنیت و ارادہ کے ساتھ وطنیت ختم کرچکے ہوں تو وہ آپ کا وطنِ اصلی نہیں رہا، لیکن چونکہ وہاں آپ کی دکانیں اور رہنے کا کمرہ بھی ہے اور سال میں ایک آدھ بار وہاں کا چکر بھی لگ جاتا ہے، لہذا اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر آپ ایک باربھی وہاں اکٹھے پندرہ دن یا اس سے زیادہ رہ چکے ہوں تو وہ آپ کا وطنِ اقامت بن چکاہے، اس لیے جب تک وہاں آپ کے رہنے کا کمرہ اور سامان موجود رہےگا تب تک وہ آپ کا وطنِ اقامت رہےگا، لہذا جب بھی آپ وہاں جائیں گے تو مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو، البتہ جب وہاں سے رہائشی کمرہ ختم کرکےترکِ وطنیت کے ارادے کے ساتھ وہاں سے  سامان بھی اٹھالیں گے تو وہ وطنِ اقامت نہیں رہے گا۔  

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم الوطن الأصلي یجوز أن یکون واحداً أو أکثر بأن كان له أهل و دار في بلدتین و أکثر ولم یكن من نیة أهله الخروج منها و إن كان هو ینتقل من أهل إلى أهل في السنة."

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما، 1/ 103، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي) ؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له وروي أن عثمان - رضي الله عنه - كان حاجا يصلي بعرفات أربعا فاتبعوه فاعتذر، وقال: إني تأهلت بمكة وقال النبي - صلى الله عليه وسلم - «من تأهل ببلدة فهو منها» والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله؛ لأنه لو لم ينتقل بهم، ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما وقيد بقوله بمثله؛ لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا؛ لأنه لم يتوطن غيره، وفي المحيط، ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له ‌دور ‌وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر اهـ.

وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له ‌دور ‌وعقار ثم قال وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد، ولهم ‌دور ‌وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، 2/ 147، ط: دار الكتاب الإسلامي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں