بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صلاۃِ حاجت پڑھنے کا طریقہ


سوال

نماز حاجت کی مکمل تفصیل کون سی حدیث کی کتا ب میں کہاں پر ثابت ہے؟ جو آپ پہلے جواب دے چکے ہیں،وہاں آپ نے حوالہ نہیں دیاتھا، حدیث کی کتاب اور حدیث نمبر بتا دیں۔

جواب

 صلاۃ الحاجۃ بھی عام نفل نماز کی طرح ایک نما ز ہے ، جو اس نیت سے پڑھی جاتی ہے کہ اپنی کسی غرض کے لیے اللہ تعالی سے اس کے بعد دعا کی جائے۔

 سننِ ترمذی میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے:

'' لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، أَسْأَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ.''

حوالہ ذیل میں درج کیا جاتاہے:

''عن عبد الله بن أبي أوفى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كانت له إلى الله حاجة، أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ وليحسن الوضوء، ثم ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله، وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، أسألك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين.''

(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الحاجة، رقم الحدیث:479، ج:1، ص:603، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں