بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سالانہ سرمایہ/ سونے/ نقدی پر زکوۃ کا حکم


سوال

1: پاکستان سٹاک ایکسچینج میں پچھلے سال میری سرمایہ کاری 150000 تھی اور اب نقصان کر کے 40000 رہ گئی ہیں، اب سٹاک مارکیٹ میں میرے چالیس ہزار ہیں اور گھر میں نقد 60000 ہیں ،  کیا مجھ  پر زکات واجب ہے اور کتنی بنتی  ہے؟

2:  میری بیوی کے پاس چار ما ہ  سے  تقریبًا چالیس ہزار  کا سونے کا لاکٹ ہے  اور پچاس ہزار نقدی ہیں اور چالیس ہزار کسی کے  ساتھ  رکشے میں شراکت داری ہے  تو کیا اس پر بھی زکوۃ واجب ہے؟ اور کتنی ہوگی؟

جواب

1: مذکورہ شخص کا کل سرمایہ اگر قرض اور بنیادی ضرورت کی رقم (مثلًا یوٹیلٹی بلز، اور راشن کا خرچہ) منہا کرنے کے بعد زکوۃ کے نصاب (جوآج بتاریخ 1/5/2021 کو فی تولہ 1447 روپے کے حساب سے 75968 روپے بنتے ہیں) کے برابر ہے یا اس سے بھی زیادہ ہے تو مذکورہ رقم میں سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ ادا  کرنا لازم ہے، زکات کی واجب الادا مقدار جاننے  کا طریقہ یہ ہے کہ مجموعی قیمت کو چالیس سے تقسیم کیاجائے تو حاصل جواب واجب الادا زکات کی رقم ہوگی۔

2: اسی طرح مذکورہ خاتون کے پاس سونے کا لاکٹ (جو کہ چالیس ہزار کا ہے)، اور نقدی (جوکہ  پچاس ہزار ہے)   کی کل مالیت اگر  اس کے ذمے پر موجود  قرض اور  اس کی بنیادی ضرورت  کی رقم   ( اور واجب الادا اخراجات)  کو منہا کرنے کے بعدباقی ماندہ رقم  زکوۃ کے نصاب کے برابر ہے یا اس سے بھی زیادہ ہے تو  مجموعی مالیت  میں سے ڈھائی فیصد  بطورِ  زکاۃ ادا کرنا  لازم ہوگا۔

باقی چالیس ہزار روپے جو رکشے میں بطورِ شراکت داری ہے، اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر مذکورہ خاتون اور اس کے شریک نے رکشہ خرید کر کرائے پر دیا ہوا ہے تو رکشے کی مالیت پر زکوۃ نہیں ہوگی، البتہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن میں سے جو اس خاتون کا حصہ ہے اگر وہ بچت میں ہے تو اسے زکوۃ کے مال میں شامل کرکے (یعنی نقدی اور سونے کے لاکٹ کے ساتھ شامل کرکے) زکوۃ کا حساب کرنا ہوگا۔ اور اگر یہ آمدن خرچ ہوچکی ہے تو اس کا حساب نہیں ہوگا۔ اور اگر رکشے میں شراکت داری کا مطلب رکشے کی خرید و فروخت میں انویسٹمنٹ ہے اور رکشہ خریدنے کی غرض اسے بیچ کر نفع کمانا ہے تو رکشے کی موجودہ مارکیٹ ویلیو میں سے اس خاتون کا جتنا حصہ بنتاہے اس مالیت کو زکوۃ کے حساب میں شامل کیا جائے گا۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"وَلَوْ فَضَلَ مِنْ النِّصَابَيْنِ أَقَلُّ مِنْ أَرْبَعَةِ مَثَاقِيلَ، وَأَقَلُّ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَإِنَّهُ تُضَمُّ إحْدَى الزِّيَادَتَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُتِمَّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا أَوْ أَرْبَعَةَ مَثَاقِيلَ ذَهَبًا كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَلَوْ ضَمَّ أَحَدَ النِّصَابَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُؤَدِّيَ كُلَّهُ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ مِنْ الْفِضَّةِ لَا بَأْسَ بِهِ لَكِنْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ التَّقْوِيمُ بِمَا هُوَ أَنْفَعُ لِلْفُقَرَاءِ قَدْرًا وَرَوَاجًا

الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ."

(الفصل الاول والثانى فى زكوة الذهب والفضة والعروض، ج:1، ص:179، ط:ايج ايم سعيد)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں