بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سالانہ استحقاقی چھٹیوں کے علاوہ لاک ڈاؤن کے ایام کی چھٹیوں کی تنخواہ کا استحقاق


سوال

 میں ایک ادارے کا ملازم ہوں اور اس ادارے کے ضابطے میں یہ طے ہے کہ "کوئی بھی ملازم اپنی طے شدہ 60 دن چھٹیوں کے علاوہ دوران سال ہونے والی کسی بھی اضافی چھٹی کا مستحق نہ ہوگا" اب پوچھنا یہ ہے کہ اس سال کرونا کی وجہ سے جو اضافی چھٹیاں ہوئیں ہیں، کیا میں ان چھٹیوں کی تنخواہ کا مستحق ہوں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جن اداروں، کارخانوں اور دکانوں کے کارکن یا گھریلو ملازمین وغیرہ   لاک ڈاؤن کے دورانیہ میں اپنی خدمات باقاعدہ طور پر انجام نہیں دے سکے، اس میں مالکان و ملازمین کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہے، یہ رکاوٹ ملکی حالات اور سرکاری احکامات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اور اس درمیان مالکان نے اپنے ملازمین سے معاملہ ختم بھی نہیں کیا تھا تو  شرعاً مالک اور ملازم اپنے طے شدہ اصولوں کے مطابق معاملہ کرنے کے پابند ہیں، اس لیے کہ یہ تمام افراد قانونِ شریعت کی اصطلاح میں ’’اجیرخاص‘‘ کہلاتے ہیں، جن کی طرف سے مفوضہ امور میں کوئی کوتاہی نہ ہو تو وہ اجرت (تنخواہ) کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر آپ کا اپنے ادارے سے عقد برقرار تھا تو آپ سالانہ استحقاقی چھٹیوں کے علاوہ لاک ڈاؤن کے ایام کی چھٹیوں کی تنخواہ کی تنخواہ کے بھی حق دار ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 69):

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير واحد (وهو من يعمل لواحد عملًا مؤقتًا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة".

رد المحتار:

قال ط: وفيه أنه إذا استؤجر شهرًا لرعي الغنم كان خاصًّا وإن لم يذكر التخصيص، فلعل المراد بالتخصيص أن لايذكر عمومًا سواء ذكر التخصيص أو أهمله، فإن الخاص يصير مشتركًا بذكر التعميم كما يأتي في عبارة الدرر".

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 288):

"الأجير الخاص: هو من يعمل لمعين عملًا مؤقتًا، ويكون عقده لمدة. ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة؛ لأن منافعه صارت مستحقة لمن استأجره في مدة العقد".

ملتقى الأبحر (ص: 547):

"والأجير الخاص من يعمل لواحد ويسمي أجير واحد ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته".

الفتاوى الهندية (4/ 500):

"والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر".

الفتاوى الهندية (4/ 417):

"استأجر أجيرًا شهرًا ليعمل له كذا لايدخل يوم الجمعة للعرف..." الخ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 372):

"وهل يأخذ أيام البطالة كعيد ورمضان لم أره وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي. واختلفوا فيها والأصح أنه يأخذ؛ لأنها للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة".

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201201289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں