بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سلام نہ کرنے کی وجہ سے جوان بیٹے کو مارنا


سوال

کیا باپ اپنے نوجوان بیٹے کو جس کی عمر 23 یا 24 سال ہے، صرف باہر سے گھر آکر سلام نہ کرنے کی وجہ سے مار سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ تربیت کی غرض سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے والدین کے لیے بچوں کو مارنے کی اجازت ہے،حدیث شریف میں دس سال کی عمر میں نماز چھوڑنے پر بچوں کو مارنے کا حکم وارد ہوا ہے، تاہم سلام کرنا اسلامی آداب میں سے ہے، والد کو چاہیے کہ آداب سکھانے کے معاملے میں نرمی کا رویہ اختیار کرے اور آداب کی تعلیم میں بچوں کی عمر کا لحاظ رکھے، بچوں کو ایسی سزا دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے جس کے وہ جسمانی یا ذہنی طور پر متحمل نہ ہوں، ایسی سزاوں سےعموماً مثبت نتائج حاصل نہیں ہوتے ،بلکہ   اس سے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں اور پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔

شرح صحیح بخاری لابن بطال میں ہے:

"قالوا: وقد حرم الله أذى المؤمنين والمؤمنات بغير ما اكتسبوا، فكذلك ضربهن بغير ما اكتسبن حرام، والصواب أنه غير جائز لأحد ضرب أحد ولا أذاه إلا بالحق، لقوله تعالى: (والذين يؤذون المؤمنين والمؤمنات بغير ما اكتسبوا) [الأحزاب: 58] ، سواء كان المضروب امرأة وضاربها زوجها، أو مملوكا وضاربه مولاه، أو صغيرا وضاربه والده، أو وصى لأبيه عليه؛ لأن الله أباح لهؤلاء ضرب من ذكرنا بالمعروف، على ما فيه صلاحهم".

(كتاب الرضاع، باب موعظة الرجل ابنته لحال زوجها، 7/ 311، ط:مكتبة الرشد)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(ولا ترفع عنهم عصاك أدبا) : مفعول له أي: للتأديب لا للتعذيب، والمعنى إذا استحقوا الأدب بالضرب فلا تسامحهم كقوله تعالى: {واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن} [النساء: 34] على الترتيب الذكري".

(باب الكبائر وعلامات النفاق، الفصل الثالث، 1/ 133، ط:دار الفكر)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"495 - حدثنا ‌مؤمل بن هشام، يعني اليشكري، ثنا ‌إسماعيل ، عن ‌سوار أبي حمزة، قال أبو داود: وهو سوار بن داود أبو حمزة المزني الصيرفي عن ‌عمرو بن شعيب ، عن ‌أبيه ، عن ‌جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مروا ‌أولادكم ‌بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع".

(‌‌كتاب الصلاة، باب متى يؤمر الغلام بالصلاة، 1/ 185 ط: المطبعة الأنصارية)

سنن ترمذی میں ہے:

"2698 - حدثنا أبو حاتم البصري الأنصاري مسلم بن حاتم قال: حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري، عن أبيه، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أنس بن مالك، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا بني إذا دخلت على أهلك فسلم يكون بركة عليك وعلى أهل بيتك»: «هذا حديث حسن غريب".

(‌‌أبواب الاستئذان والآداب، باب ما جاء في التسليم إذا دخل بيته، 5/ 59، ط: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي ت:  شاكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں