بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم کھائی کہ سلام نہ کروں گا،پھر سلام کا جواب دے دیا یا ہاتھ ملالیا تو حانث ہوگا یا نہیں؟


سوال

ایک شخص شریف نے یہ کہا کہ اگر میں عبد الہادی کو سلام کروں تو میری بیوی کو طلاق ہو، اگر وہ صرف ہاتھ ملالے تو اس سے طلاق ہوجائے گی؟

اور اگر عبد الہادی سلام کرے اور شریف جواب دے تو کیا اس سے بھی طلاق ہوجائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ قسم میں عرف کا اعتبار صرف انہی الفاظ کی حد تک ہوتا ہے جو کہ قسم میں مذکور ہوں،اور جو الفاظ قسم میں ذکر نہ ہوں ان پر قسم واقع نہیں ہوتی، اگر چہ عرفاً وہ قسم کھانے والے کی غرض میں داخل ہوں،نیز ہمارے عرف میں سلام کرنے سے السلام علیکم کرنا ہی مراد لیا جاتا ہے،جب کہ سلام کا جواب دینے کو لغۃً سلام لینے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سلام نہ کرنے کی قسم کھانے والے کی غرض اگرچہ یہی ہوتی ہے کہ وہ محلوف(جس کے بارے میں قسم کھائی ہے) سےنہ کوئی بات کرے گااور نہ ہی کوئی تعلق رکھے گا،تاہم  چوں کہ ہاتھ نہ ملانا،سلام نہ لینا(جواب نہ دینا)اورکسی قسم کا تعلق نہ رکھناقسم میں مذکور نہیں ہے،اسی لیےاگر شریف نے عبد الہادی سے منہ سے سلام کرنے کے بجائے ہاتھ ملالیاتو وہ حانث نہ ہوگا،اور اس کی بیوی کو طلاق نہ ہوگی،اسی طرح اگر عبد الہادی نے سلام کیا اور شریف نے اس کا جواب دے دیا، تب بھی وہ حانث نہ ہوگااور اس کی بیوی کو طلاق نہ ہوگی۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"(الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض)

فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر، ولهذا قال في تلخيص الجامع الكبير وبالعرف يخص ولا يزاد...ودلالة العرف لا تأثير لها في جعل غير الملفوظ ملفوظا إذا علمت ذلك فاعلم أنه إذا حلف لا يشتري لإنسان شيئا بفلس فاللفظ المسمى وهو الفلس معناه في اللغة والعرف واحد، وهو القطعة من النحاس المضروبة المعلومة فهو اسم خاص معلوم لا يصدق على الدرهم أو الدينار فإذا اشترى له شيئا بدرهم لا يحنث وإن كان الغرض عرفا أن لا يشتري أيضا بدرهم ولا غيره ولكن ذلك زائد على اللفظ المسمى غير داخل في مدلوله فلا تصح إرادته بلفظ الفلس."

(ص:٧٤٤،ج:٣،كتاب الأيمان،‌‌باب اليمين في الدخول والخروج والسكنى والإتيان والركوب وغير ذلك،ط:ايج ايم سعيد)

’’فیروز اللغات‘‘ میں ہے:

’’سلام کرنا:آداب بجالانا،کسی کی بڑائی کا اعتراف کرنا،قائل ہونا،باز آنا،خیرباد کہنا۔

سلام لینا:سلام کا جواب دینا۔‘‘

(ص:٤٢٨،حرف :س،س-ل،ط:فیروز سنز)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں