بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

سلام کرنے سے رجوع نہیں ہوتا / فاسق باپ کوبچی کا حقِ حضانت نہیں


سوال

میری شادی 2016 میں ہوئی تب سے لے کر 2022 تک میرا شوہر نہ میرا خرچہ دیتا تھا، نہ میری بچی کا، چھ سال لڑ جھگڑ کر ایسے ہی گزارے، میں گزارا کر رہی تھی اپنی بچی کے خاطر، وہ نشہ کرتا تھا، گھر میں مردوں کو لاتا تھا، اور اپنی جنسی خواہش بھی خود ہی پوری کر لیتا تھا، پھر جب ہماری آخری لڑائی ہوئی تو اس نے مجھے دو طلاق دی تھیں، ان الفاظ سے کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" اس پر آپ کے جامعہ سے فتوی بھی ملا تھاجو  سوال نامے کے ساتھ منسلک ہے میری عدت کے دوران شوہر نے کوئی رجوع وغیرہ نہیں کیا تھا، البتہ صرف واٹس ایپ پر سلام بھیجا جس کے جواب میں، میں نے سلام کا جواب کہا، بس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہوئی تھی، میری عدت پوری ہو جانے کے بعد پھر میرے شوہر نے کہا کہ میں تمہیں واپس رکھنا چاہتا ہوں کیوں کہ میں نے تمہیں سلام بھیج دیا تھا جس سے رجوع ہو گیا، لیکن میں اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی، تو میں نے عدالت میں خلع کے لیے مقدمہ دائر کر دیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ صرف سلام کے بھیجنے اور میرے جواب دینے سے رجوع ہوا یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ اگر عدالت کی طرف سے میرے حق میں خلع کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو کیا مجھے دوبارہ عدت گزارنی ہوگی یا پہلے والی عدت کافی ہے؟ تیسرا یہ ہے کہ میری بچی چھوٹی ہے میں چاہتی ہوں کہ وہ میرے پاس رہے، شوہر بیٹی کو مانگ رہا ہے بچی ابھی سات سال کی ہے اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کہ وہ کس کے پاس رہے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ سائلہ کے شوہر نے دورانِ عدت  واٹس ایپ پر صرف سلام بھیجا، اس کے علاوہ رجوع کے کوئی الفاظ نہیں کہے اور نہ عملاً رجوع کیا (مثلاً ہمبستری کی ہو یا پھر شہوت کے ساتھ بوس وکنار یا لمس کیا ہو) تو ایسی صورت میں صرف سلام بھیجنے سے رجوع نہیں ہوا، لہذا عدت میں شرعی رجوع نہ کرنے کی وجہ سے عدت  ختم ہوتے ہی سائلہ بائنہ ہوگئی اور نکاح ختم ہوگیا، اس کے بعد شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں، سائلہ شرعاً دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ اور چوں کہ اب نکاح ہی برقرار نہیں رہا توسائلہ کو خلع لینے کی بھی ضرورت نہیں، تاہم دوسری جگہ نکاح کرنے سے قبل کسی قانونی ادارہ سے طلاق وغیرہ کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنا مناسب ہوگا تاکہ بعد میں قانونی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ باقی جب میاں بیوی میں جدائی واقع ہوجائے تو لڑکی ہونے کی صورت میں نو سال کی عمر تک پرورش کا حق اس کی ماں کو ہے اور نو سال کے بعد باپ اپنی پرورش میں لے سکتا ہے، لہذا بچی کی عمر نو سال ہونے تک سائلہ کو اس کی پرورش کا حق حاصل ہے اور جب بچی نو سال کی ہوجائے تو دیکھا جائے گا کہ سائلہ کا سابقہ شوہر اب بھی نشہ کرتا ہے اور دیگر مذکورہ خراب عادتیں اس میں پائی جاتی ہیں تو اس کو سائلہ سے بچی کو لینے حق نہیں ہوگا  اور اگر وہ ان مذکورہ خراب عادتوں سے پاک ہے اور فسق میں مبتلاء نہیں تو اس کو بچی کو اپنی پرورش میں لینے کا حق ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركن الرجعة فهو قول أو فعل يدل على الرجعة: أما القول فنحو أن يقول لها: راجعتك أو رددتك أو رجعتك أو أعدتك أو راجعت امرأتي أو راجعتها أو رددتها أو أعدتها، ونحو ذلك........وأما الفعل الدال على الرجعة فهو أن يجامعها أو يمس شيئا من أعضائها لشهوة أو ينظر إلى فرجها عن شهوة أو يوجد شيء من ذلك ههنا."

(كتاب الرجعة، ركن الرجعة، ج:3، ص: 183، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."

(كتاب الطلاق، فصل في بيان حكم الطلاق، ج:3، ص:180، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

(والحاضنة) .......... (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.........وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. .......ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(باب الحضانة ج: 3، ص: 566، ط: ايچ ايم سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها: إذا كان الصغير جارية أن تكون عصبتها ممن يؤتمن عليها فإن كان لا يؤتمن لفسقه ولخيانته؛ لم يكن له فيها حق."

(كتاب الحضانة، ج: 4، ص: 43، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا حق لغير المحرم في حضانة الجارية ولا للعصبة الفاسق على الصغيرة كذا في الكفاية."

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر، ج:1 ص: 542، ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601102185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں