بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سلام کا جواب دینا


سوال

اگر کوئی مسلمان سلام کو سن کر دوسرے مسلمان کو اس کا  جواب نہ دے تو کیا وہ گناہ گار ہوتا ہے یا نہیں؟ نیز سلام کا جواب دینا فرض ہے یا واجب؟

جواب

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر من جملہ حقوق کے سلام کا جواب دینا بھی ہے، سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا فرض ہے، البتہ کسی مجمع کو سلام کیا جائے اور اس مجمع میں سے کوئی ایک بھی جواب دے دے تو سب سے فرض ادا ہوجائے گا، اس لیے کہ جواب دینا فرضِ کفایہ ہے، اسے کبھی واجب کے لفظ بھی تعبیر کیا جاتا ہے، اور اگر کوئی آدمی کسی کام میں مصروف نہ ہو اور اسے سلام کیا جائے اور وہ بلا عذر  اس کا جواب نہ دے تو وہ  گناہ گار ہوگا۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي هریرۃ رضي اللّٰه عنه قال: سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول: حق المسلم على المسلم خمس: ردّ السلام …" الخ

( کتاب الجنائز / باب الأمر باتباع الجنائز ۱؍۱۶۶ رقم: ۱۲۴۰ دار الفکر بیروت)

"قال النووي: نقل ابن عبد البر إجماع المسلمین علی أن ابتداء السلام سنة وأن ردہ فرض (أي واجب)."

 (تکملۃ فتح الملہم ۴؍۲۴۵ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)

فتاوی شامی میں ہے:

"إنّ السلام سنة واستماعه مستحبّ، وجوابه أي ردّہ فرض کفایة، وإسماع ردّہ واجب."

 (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۶؍۴۱۳ کراچی، ۹؍۵۹۳ زکریا)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں