بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سلام کا حکم


سوال

ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں کی عادت بن گئی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو سلام کریں یعنی السلام علیکم کہیں۔ جو لوگ ان کو سلام نہیں کرتے تو ان کو برا سمجھتے ہیں ، ان کی تحقیر کرتے ہیں، ان کو بد نام لوگوں کی نظر سے دیکھتے ہیں،  میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو سلام کرنے کا حکم کیا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ سلام كو  پھیلانا سنت ہے چاہے سلام کرنے والا جس کو سلام کیاجائے اس کو جانتا ہویا نہیں،کیوں  کہ حدیث میں آتاہے جوآدمی سلام میں پہل کرتا ہے وہ تکبر سے بری ہے ،نیز  سلام کرنا تو سنت ہے لیکن سلام کا جواب دینا واجب ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کوچاہیے کہ جب کسی سے ملا قات کرنی  ہو تو اس کو سلام کرے ،تاکہ  سنت پربھی عمل ہوجائے اور اگر سلام نہ کرنے پر وہ کسی اعتبار سے تکلیف پہنچائیں تو  ان کی ایذاوتکلیف سےبھی محفوظ ہوجائے ،نیز جوسلام نہ کرے تو اس کوحقارت کی نظر سے دیکھنا ،اور اس کامذاق اڑانادرست نہیں ہے ۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے: 

"وإفشاء السلام، لأن ‌المقصود ‌من ‌السلام ما يجري بين المسلمين عند الملاقاة مما يدل على الدعاء لأخيه المسلم، وإرادة الخير له."

(كتاب الأشربة،21،/203،ط: دارالفكر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عبدالله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البادئ بالسلام بريء من الكبر» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان»"

عبداللہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہوتا ہے۔ 
(كتاب الآداب، باب السلام،‌‌ الفصل الثالث، ٣٢٢/٣، ط:المكتب الإسلامي - بيروت )
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں