بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سال کے دوران مالِ زکات میں کمی زیادتی کا مسئلہ


سوال

میں آرمی سے ریٹائر ہوا ہوں، مروجہ قانون کے تحت پنشن کی مد میں گورنمنٹ کچھ رقم دیتی ہے جو کہ 20 سے 40 لاکھ تک ہو سکتی ہے  اور  ضرورت کے مطابق اس رقم کو استعمال کیا جاتا ہے،یعنی کم زیادہ ہوتی رہتی ہے ،اس رقم پر زکواة کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اگر پہلے سے صاحب نصاب ہے تو جب یہ رقم  ملے ،تو اس وقت جو رقم خرچ ہو چکی ہو ،اس پر تو زکات لازم وضروری نہیں  ہے، باقی جو رقم بچے اسے دیگر اموالِ زکات کے ساتھ ملا کر دیکھے ،جتنی بھی مالیت بنتی ہے ،اس سب کی زکات ادا کرنا لازم ہے ۔سال کے درمیان میں مالِ زکات کے کم زیادہ ہونے سے زکات کے وجوب میں فرق نہیں پڑتا۔

اور اگر سائل پہلے سے صاحب ِ نصاب نہیں ہے (یعنی اس کی مالیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر سونا چاندی ،نقدی یا مالِ تجارت نہیں ہے )تو جب مذکورہ رقم سائل کو ملے ،اس پر سال گزرنے کے بعد  جو خرچ ہو چکی ہے ،اس پر زکات نہیں ہے ،اس کو منہا کرنے کے بعد اگر باقی رقم نصابِ زکات کو پہنچتی ہے،تو اس میں سے ڈھائی فیصد کے لحاظ سے زکات ادا کرنا فرض ہے ۔

"مبسوط سرخسی" میں ہے:

"وإذا كان النصاب كاملا ‌في ‌أول ‌الحول ‌وآخره فالزكاة واجبة، وإن انتقص فيما بين ذلك وقتا طويلا ما لم ينقطع أصله من يده."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:172، ط:دارالمعرفة)

"تحفۃ الفقہاء" ميں ہے:

"ثم مال الزكاة يعتبر فيه كمال النصاب ‌في ‌أول ‌الحول ‌وآخره ، ونقصان النصاب بين طرفي الحول لا يمنع وجوب الزكاة سواء كان مال التجارة أو الذهب والفضة أو السوائم هذا عند أصحابنا الثلاثة.

فأما إذا هلك النصاب أصلا بحيث لم يبق منه شيء يستأنف الحول لأنه لم يوجد شيء من النصاب الأصلي حتى يضم إليه المستفاد."

(كتاب الزكاة، ج:1، ص:272، ط:دارالكتب العلمية)

"خیر الفتاوی" میں ہے:

"سوال: ایک شخص کو ہر مہینہ کے شروع میں زکوۃ کے نصاب سے زائدرقم ملتی ہے، لیکن اخیر مہینہ میں نصاب سے کم رہ جاتی ہے، بالکل ختم نہیں ہوتی،اسی طرح سال گزر جاتا ہے،اس پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب: جب یہ شخص شروع مہینہ میں صاحب نصاب ہوگیاتو اس وقت سے اس کو حساب لگانا چاہیے اگر اس کے پاس آخر سال تک ایسے ہی رقم آتی جاتی رہی لیکن بالکل ختم نہیں ہوئی، تو آخر سال میں نصاب کے برابر رقم موجود ہوئی تو زکوۃ واجب ہوگی، درمیان میں نصاب کی کمی بیشی سے فرق نہیں پڑےگا بشرطیکہ کسی وقت مال بالکل ختم نہ ہوا ہو۔"

(کتاب الزکاۃ، ج:3، ص:429، ط:مکتبہ امدادیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509100362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں