بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سال کے آخر میں صاحبِ نصاب نہ رہنے سے زکوۃ کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص یکم رمضان کو صاحب نصاب ہوا تھا،  اور وہ ہر سال یکم رمضان پر زکوۃ ادا کرتا رہتا ہے ،مگر ایک سال ایسا آیا کہ وہ یکم رمضان کو صاحب نصاب نہیں رہا ،اور اس نے زکوۃ ادا نہیں کی، پھر وہ یکم ذوالحجہ کو دوبارہ صاحب نصاب ہوگیا ، تو کیا اب وہ آئندہ یکم ذوالحجہ کے اعتبار سے زکوۃ ادا کرے گا یا یکم رمضان کا ہی حساب رکھے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص سال کے اختتام پر  صاحبِ نصاب نہ رہا، تو اس سال کی زکوۃ مذکورہ شخص سے ساقط ہوگئی تاہم جب یہی شخص یکم ذوالحجہ کو صاحبِ نصاب ہوگیا، تو صاحبِ نصاب ہوجانے کے بعد آئندہ یکم ذوالحجہ کے اعتبار سے حسبِ شرائط زکوۃ ادا کرےگا، رمضان کی زکوۃ کی تاریخ کا اعتبار نہیں رہا۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول.

(قوله: وشرط كمال النصاب إلخ) أي ولو حكما، لما في البحر والنهر، لو كان له غنم للتجارة تساوي نصابا فماتت قبل الحول فدبغ جلودها وتم الحول عليها كان عليه الزكاة إن بلغت نصابا، ولو تخمر عصيره الذي للتجارة قبل الحول ثم صار خلا وتم الحول عليه وهو كذلك لا زكاة عليه؛ لأن النصاب في الأول باق لبقاء الجلد لتقومه بخلافه في الثاني. وروى ابن سماعة أنه عليه الزكاة في الثاني أيضا (قوله: للانعقاد) أي انعقاد السبب أي تحققه بتملك النصاب ط (قوله: للوجوب) أي لتحقق الوجوب عليه ط (قوله: فلو هلك كله) أي في أثناء الحول بطل الحول، حتى لو استفاد فيه غيره استأنف له حولا جديدا".

(کتاب الزکوۃ، باب زکوۃ المال، ج:2، ص:302، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں