بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سال کے درمیان قرض دار ہونے کی صورت میں زکات کا حکم


سوال

ميں ہر سال  رمضان شريف میں اپني  پراپرٹي اور زيور ات كي  زكوة ديتا  تھا ،آخری سال میں اپنی جاب پر نہیں   جا سکا اور مجھ پر قرضہ آگیا ہے،اب میرے پاس زکوۃ دینے کے پیسے نہیں  ہیں ، مجھے بتائیں  کہ اس  صورت میں بھی مجھ پر  زکوۃ ادا کرنا واجب ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ   واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سال کی ابتدا ء اور انتہاء   کے وقت آپ   نصاب کے مالک ہوں ،اگر سال کے شروع میں  آپ نصاب کے مالک تھے لیکن سال کے اختتام پر  غریب ہو گئے اور نصاب کے مالک نہ رہے تو آپ پر  زکوۃ واجب نہ ہو گی،لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر آپ کے پاس سال کے آخر میں  اتنا مال نہیں بچا تھاکہ جس پر زکوۃ واجب ہوتی ہو ،تو  آپ پر زکوۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہے،البتہ اگر زیورات  اور پراپرٹی موجود ہے تو قرض کو اس سے منھا کر کے دیکھا جائے اگر قرض منھا کرنے کے بعد  آپ کے پاس اتنا  زیور اور پراپرٹی  باقی رہ جاتی ہے جس کی مالیت  زکوۃ کےنصاب تک پہنچتی ہو،تو پھر آپ پر زکوۃ کی ادائیگی  واجب ہے،اور اگر گزشتہ سالوں کی زکوۃ باقی ہو تو  اس کی ادائیگی بہر حال سائل کے ذمہ واجب رہے گی۔

المحیط البرھانی میں ہے:

"الزكاة واجبة في الذهب والفضة، مضروبة كانت أو غير مضروبة، نوى التجارة أو، لا إذا بلغت الفضة مائتي درهم، والذهب عشرين مثقالا، وإذا نقص نقصانا لا يسيرا يدخل بين الوزنين لا تجب الزكاة إن كان كاملا في حق غيره، هكذا ذكر القدوري في «كتابه» ، وهذا لأن الزكاة إنما تجب على المال، فيعتبر كمال النصاب في حقه، فإذا كان ناقصا في حقه لا تجب الزكاة"۔

(کتاب الزکاۃ، ‌‌الفصل الثالث في بيان مال الزكاة، ج:2، ص:240،دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

وفیہ ایضاً:

"ما يمنع وجوب الزكاة أنواع، منها الذي قال أصحابنا رحمهم الله: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة، سواء كان الدين للعباد، أو لله تعالى كدين الزكاة"۔

(کتاب الزکاۃ، ‌‌الفصل العاشر في بيان ما يمنع وجوب الزكاة، ج:2، ص:293، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى"۔

(کتاب الزکوٰۃ، فصل شرائط فرضية الزكاة، ج:2، ص:7، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں