بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سال کے شروع میں طلبہ سے رقم لے کر سال کے آخر میں مقابلوں میں پوزیشن لینے والوں کو انعام دینا


سوال

ہمارے مدرسہ میں داخلہ کے وقت طلبہ سے کچھ رقم لی جاتی ہے، سال کے آخر میں طلبہ کے درمیان حمد، قرات، تقریر وغیرہ کے مقابلے کرائے جاتے ہیں، مقابلے میں پہلی، دوسری، تیسری پوزیشن حاصل کرنے والوں کو مذکورہ رقم سے نوازا جاتا ہے (جو داخلہ کے وقت ان سے لیا گیا تھا)، میں جو بات جاننا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا سال کے آخر میں داخلوں کے پیسوں سے کچھ رقم  نکال کر مقابلہ کرنے والوں کو اس رقم سے انعام دینا جائز ہے یا نہیں؟ بعض کہتے ہیں کہ طلباء سے پیسے لینے کے بعد مدرسہ اس کا مالک بن جاتا ہے اب مدرسہ جس شعبے میں چاہے خرچ کر سکتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں   اگر   مذکورہ رقم  داخلہ کی کار روائی، امتحان، فارم اور عملہ کی خدمات کے عوض لی جاتی ہوتو یہ  رقم مدرسہ کی ملکیت ہوگی   مقابلے میں پہلی، دوسری، تیسری پوزیشن حاصل کرنے والوں کو مذکورہ رقم سے انعامات دے سکتی ہے، اگر معاملہ کچھ اور ہو تو پھر وضاحت کرکے دوبارہ معلوم کیا جاسکتاہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ‌ما ‌يعطى ‌لإبطال ‌حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلا يجوز لهم الأخذ عليه، كذا ذكره ابن الملك."

(کتاب الإمارة والقضاء، ج:6، ص:2437، ط:دار الفکر)

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"وإن كان اشتراط العرض من الإمام يجوز بالإجماع لأن هذا مما يحتاج إليه، لأنه حث على الجهاد. وحرم لو شرط المال من الجانبين بالإجماع، ‌إلا ‌إذا ‌أدخلا ثالثا بينهما، وقال للثالث إن سبقتنا فمالك، وإن سبقناك فلا شيء لك، هو فيما بينهما أيهما سبق أخذ الجعل عن صاحبه."

(كتاب الكراهية، مسايل متفرقة، ج:12، ص:254، ط:دار الکتب العلمية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر یہ روپیہ بچہ کے اخراجات کے لیے ہیں، مثلا:کمرے کا کرایہ،پانی اور روشنی کامعاوضہ کھنے اور ناشتے کی قیمت کپڑوں کےمصارف، خدمت گار کی تنخواہ وغیرہ وغیرہ تویہ رشوت نہیں، یہ مصارف آپ کے ذمہ ہوں گے اور اگر یہ روپیہ فیس اور حفاظت ونگرانی کے ذیل میں ہے، تب بھی یہ رشوت نہیں۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب الرشوۃ، ج:24، ص:225، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں