بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سال كے درميان حاصل ہونے والی رقم پر زکات کا حکم


سوال

1۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم آتی جاتی ہے،  اس پر زکات کا حساب کیسے لگایا جائے گا کیونکہ کچھ رقم ایسی بھی ہے جس پر سال نہیں گزرا؟

2۔ میں پہلی رمضان کو زکات کا حساب لگاتا ہوں،اب کچھ وقت  پہلے میں نے گاڑی فروخت کی ہے ، اس رقم پر زکات کے بارے میں بھی بتائیں؟

جواب

واضح ہو کہ صاحبِ نصاب شخص کے لیے سال کے دوران جو  ضرورت سے زائد مال میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے لیے الگ  سال کا حساب نہیں کیا جاتا ، بلکہ وہ  سال کے حساب میں پرانے اموال کے تابع ہوتا ہے ،مثلًا جو شخص صفر کی  پندرہ کو صاحبِ  نصاب بنا پھر ربیع الثانی کی پہلی تاریخ کو اس کے مال میں اضافہ ہوا (چاہے کہیں سے ہدیہ ملا یا کاروبار میں نفع ہوا یا کسی اور سبب سے مال حاصل ہوا ) تو اس اضافی مال کی  زکات بھی اگلے سال پندرہ صفر کوادا کرنا واجب ہوگی،ایسا نہیں ہوگا کہ اس اضافی مال کی  زکات پہلی ربیع الثانی  کو واجب ہو۔

1۔صورت مسئولہ میں   سال کے درمیان میں حاصل ہونے والی اضافی رقم پر الگ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے بلکہ وہ اضافی رقم دیگر اموالِ زکات ( یعنی نقدی، سونا، چاندی اور مالِ تجارت) میں ضم ہوجاتی ہے (یعنی مل جاتی ہے)  لہذا زکات کا سال مکمل ہونے کے وقت کرنٹ اکاونٹ (اور دیگر اموالِ زکات )  کی (مجموعی)  رقم پر زکات ادا کرنا واجب ہوگا۔

2۔ گاڑی بیچ کر حاصل ہونے والی رقم  کا بھی یہی حکم ہے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة. فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لا يضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق هكذا في شرح الطحاوي. ثم إنما يضم المستفاد عندنا إلى أصل المال إذا كان الأصل نصابا فأما إذا كان أقل فإنه لا يضم إليه، وإن كان يتكامل به النصاب وينعقد الحول عليهما حال وجود النصاب كذا في البدائع."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج1، ص175، رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100585

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں