بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صوم الدہر (سال بھر روزہ رکھنا)


سوال

سال بھر روزہ رکھنا کیسا ہے؟

جواب

سال بھر روزہ رکھنا اس صورت میں جائز ہے جب کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے آدمی اپنے ذمے کے فرائض و واجبات میں کمی کوتاہی نہ کرے، تاہم سال میں پانچ دن (عید الفطر کے دن اور ایامِ تشریق  یعنی دس، گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ میں )  روزے  رکھنا جائز نہیں ہے۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ مسلسل روزے رکھنے  سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، گو  یہ ممانعت حرمت کے لیے نہیں ہے، لیکن رسول اللہ  ﷺ   نے  امت کے لیے بھی اعتدال کے ساتھ اتنی عبادت کو پسند فرمایا ہے جس معمول کو آدمی پابندی سے نباہ سکے، اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی میں بظاہر تھوڑے عمل میں اجر زیاد ہے، چناں چہ آپ ﷺ نے  رمضان المبارک کے علاوہ ہر ماہ تین دن روزے  رکھنے کو  ساری  زندگی روزے  کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے۔

بہرحال سال بھر روزہ رکھنا جائز تو ہے لیکن ان باہمت لوگوں کے لیے جو اِسے نباہ سکیں اور اپنے ذمے کے فرائض و واجبات میں کوتاہی نہ کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 376):

وقال بعض الفقهاء: من صام سائر الدهر وأفطر يوم الفطر والأضحى وأيام التشريق لا يدخل تحت نهي الوصال ورد عليه أبو يوسف فقال: وليس هذا عندي كما قال هذا قد صام الدهر كأنه أشار إلى أن النهي عن صوم الدهر ليس لصوم هذه الأيام بل لما يضعفه عن الفرائض والواجبات والكسب الذي لا بد له منه. اهـ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 59):

(قوله: ووكيع بن الجراح) بن مليح بن عدي الكوفي، شيخ الإسلام، وأحد الأئمة الأعلام. قال يحيى بن أكثم: كان وكيع يصوم الدهر، ويختم القرآن كل ليلة.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں