بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح سے متعلق صحیح بخاری کی حدیث کی تشریح


سوال

صحیح بخاری میں حدیث نمبر 2010 جس میں عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کے متعلق بیان کیا ہے ،اس  کی تشریح کریں ۔

جواب

صحيح بخاری ميں ہے:

" - وعن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنه قال: «خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل، ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر: نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون، يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله."

(کتاب صلاۃ التراویح ،باب فضل من قام رمضان،45/3،رقم،2010،ط،بیروت)

ترجمہ:"ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا، سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چناں چہ آپ نے یہی  ارادہ کیا اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔"

حدیث کی تشریح:

1:امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کی مشروعیت ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے،رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اس کی جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہیں تھا، وہ اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا فرض ہو جائے اور لوگ اس سے عاجز آ جائیں ،بعد ازاں جب رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وجوب کا اندیشہ نہ رہا تو باجماعت تراویح کا اہتمام کر دیا گیا ،حضرت عمر ؓ نے اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنایا تھا، اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
 2:یاد رہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس فعل کو شاندار بدعت سے اس لیے موسوم کیا کہ ان کے زمانے میں نماز تراویح اس طرح نہیں پڑھی جاتی تھی،اس اعتبار سے ان کے عہد خلافت میں یقینا یہ نیا کام تھا، لیکن فی الحقیقت یہ کام رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کیا جا چکا تھا۔
اسے بدعت کہنے کی یہ ہرگز وجہ نہ تھی کہ حضرت عمر ؓ بدعت کی تقسیم سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں:ایک بدعت حسنہ، ایک بدعت سیئہ، جیسا کہ آج کل بعض حضرات کا موقف ہے۔شریعت کی نظر میں ہر بدعت ہی گمراہی ہے۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد بدعت لغوی ہے شرعی نہیں کیونکہ لغت میں بدعت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کی ابتدا پہلی مرتبہ کی گئی ہو   ،  اور شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں: ” دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا،  جس کی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو، اور جو  صحابہؓ،  تابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوا ہو ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو، نہ قولا،  ًنہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ اشارۃً ، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے“،  اس اصطلاحی  معنی میں جو بدعت ہو،  وہ ہمیشہ سئیہ ہی ہوتی ہے، یہ حسنہ  نہیں ہوتی۔

3: یہ بھی یاد رہے کہ امیرالمؤمنین ہونے کی حیثیت سے فرض نمازوں کی جماعت تو آپ رضی اللہ عنہ ہی فرماتے تھے، اور یقیناً رمضان المبارک میں بھی فرائض کی جماعت آپ ہی کرتے ہوں گے، اور درج بالا روایت سے یہ بھی معلوم ہوچکاکہ صحابہ کرام کا یہ اجتماع رات کے ابتدائی حصے میں یعنی عشاء کے بعد ہوتاتھا، یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بعید معلوم ہوتی ہے کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھاکر بغیر وجہ کے سب لوگوں کو جماعت سے تراویح ادا کرتاہوا چھوڑ کر خود تشریف لے جایا کرتے ہوں! اور اگر وہ ایسا کرتے تو روایت میں یہ صراحت ضرور ہوتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو تو جمع کیا لیکن خود تراویح کی نماز ادا نہیں کیا کرتے تھے، اس ساری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مذکورہ روایت کے عمومی الفاظ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود تراویح میں شرکت نہیں فرماتے تھے۔ 

عمدۃ القاری میں ہے:

"ثم خرجت معه) أي: مع عمر ليلة أخرى، وفيه إشعار بأن عمر، رضي الله تعالى عنه، كان لا يواظب الصلاة معهم، وكأنه يرى أن الصلاة في بيته أفضل، ولا سيما في آخر الليل، وعن هذا قال الطحاوي: التراويح في البيت أفضل. قوله: (نعم البدعة) ، ويروى: (نعمت البدعة) ، بزيادة التاء، ويقال: نعم، كلمة تجمع المحاسن كلها، وبئس، كلمة تجمع المساوىء كلها، وإنما دعاها بدعة لأن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، لم يسنها لهم، ولا كانت في زمن أبي بكر، رضي الله تعالى عنه. ورغب رسول الله، صلى الله عليه وسلم، فيها بقوله: نعم، ليدل على فضلها، ولئلا يمنع هذا اللقب من فعلها. والبدعة في الأصل أحداث أمر لم يكن في زمن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ثم البدعة على نوعين: إن كانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي بدعة حسنة، وإن كانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي بدعة مستقبحة."

(کتاب صلاۃ التراویح،باب فضل من قام رمضان،126/11،ط،دار الفکر)

فیض الباری میں ہے:

"واعلم أنه ذهب جماعة من الحنفية إلى أن التراويح في البيت أفضل لمن كان حافظ القرآن، ومن لا يكون كذلك، فالأفضل له أن يحضر الجماعة يستمع الذكر. وذهب جماعة إلى أن الفضل في حضور الجماعة مطلقا. وجنح الطحاوي إلى الأول، وهو الأرجح، فإنه ثبت عن كبار الصحابة أنهم كانوا يصلونها في البيت. وهذا عمر لم يكن يصليها بالجماعة، مع كونه أميرا، فكان ينبغي له أن يخرج إليهم، فإن الإمامة إذ ذاك كانت مختصة بالأمير. نعم ينبغي للعلماء أن لا يفتوا به، فإن من لا يأتي الجماعة يوشك أن لا يصليها رأسا. وهذا هو الحال في السنن، فإن الأفضل فيها أن تصلى في البيوت، إلا أنه ينبغي الفتوى بأدائها في المسجد، لئلا يحتال المتكاسلون في تركها. وثبت عن علي أنه أم بالكوفة في التراويح.

وأما عدد ركعات التراويح، فقد جاء عن عمر على أنحاء، واستقر الأمر على العشرين مع ثلاث الوتر. ويعلم من «موطأ مالك»: أنه خفف في القراءة، وزاد في الركعات بتنصيف القراءة، وتضعيف الركعات. وبعد ما تلقته الأمة بالقبول، لا بحث لنا أنه كان ذلك اجتهادا منه، أو ماذا؟ ومن ادعى العمل بالحديث، فأولى له أن يصليها حتى يخشى فوت الفلاح، فإن هذه صلاة النبي صلى الله عليه وسلم في اليوم الآخر. وأما من اكتفى بالركعات الثمانية، وشذ عن السواد الأعظم، وجعل يرميهم بالبدعة، فلير عاقبته، والله تعالى أعلم."

(کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان،375/3،رقم،2013،ط،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں