بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ تلاوت کب کیا جائے؟


سوال

اگر تلاوت قرآن پاک کر رہے ہوں اور تلاوت قرآن پاک میں سجدہ آجائے کیا اسی وقت سجدہ کر لینا چاہیے یا بعد میں کچھ دیر بعد بھی کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

آیتِ سجدہ  تلاوت  کرنے یا سننے سےسجدہ کرنا واجب ہوجاتا ہے، نماز کے علاوہ عام حالت میں تلاوت کرتے ہوئے آیتِ سجدہ تلاوت کی تو افضل اور بہتر یہی ہے کہ جیسے ہی آیتِ سجدہ تلاوت کرے  اسی وقت سجدہ تلاوت کرلے، اور اگر یہ نہ ہو تو تلاوت ختم کرنے کے بعد کرلے، بلاکسی ضرورت کے تاخیر کرنا مناسب نہیں ، تاہم اگرتاخیر سے سجدہ  کرلیا تو سجدہ ادا ہوجائےگا،اور  اگر  نماز میں  آیتِ سجدہ تلاوت کی تو نماز کے اندر ہی اس کو ادا کرنا واجب ہے،  نماز کے بعد یہ ساقط ہوجاتا ہے، البتہ ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ ہوگا جس پر توبہ و استغفار لاز م ہے۔

نیزفجر کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے سے پہلے، اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے پہلے سجدہ تلاوت ادا کرنا جائز ہے، خواہ اس وقت  آیتِ سجدہ تلاوت کی ہو یا پہلے تلاوت کی ہو،اور تین ممنوع اوقات یعنی سورج کے طلوع ، غروب (یعنی سورج کے زردی مائل ہونے کے بعد سے غروب ہونے تک)  اور زوال (نصف النہار) کے وقت  میں اگر آیت سجدہ کی تلاوت کی گئی ہو تو ان اوقات میں سجدہ تلاوت کی ادائیگی جائز ہے، مگر مکروہ تنزیہی ہے،  بہتر یہی ہے کہ ممنوع  وقت نکل جانے کے بعد سجدہ تلاوت ادا کیا جائے،اور  اگر آیتِ سجدہ کی تلاوت مذکورہ اوقات  یعنی طلوع، غروب اور زوال کے علاوہ کسی اور وقت میں کی گئی تو اس کا سجدہ مذکورہ اوقات   یعنی طلوع، غروب اور زوال میں کرنا مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"سجود التلاوة في القرآن أربعة عشر، كذا في الهداية. ........ والسجدة واجبة في هذه المواضع على التالي والسامع سواء قصد سماع القرآن أو لم يقصد، كذا في الهداية".

(كتاب الطهارة، الباب الثالث عشر في سجود التلاوة، ج:1، ص:132، ط:مكتبة رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة.
(قوله: أو تحريماً) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية.
(قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلا، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج حضرت " وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه وبخلاف سجدة التلاوة؛ لأن التعجيل لا يستحب فيها مطلقا اهـ أي بل يستحب في وقت مباح فقط فثبتت كراهة التنزيه في سجدة التلاوة دون صلاة الجنازة.......(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به

(قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل".

(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ 1/ 370، 374 و375ط:سعید)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع.
كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي ....تسعة  أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية۔۔۔ ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية".

(الفتاوى الهندية ،کتاب الصلاۃ1/ 52ط:رشیدیہ)

زبدة الفقہ میں ہے:

’’اگر آیتِ سجدہ نماز سے باہر پڑھی تو فوراً سجدہ کرنا واجب نہیں، ہاں بہتر و افضل ہے اور تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے؛ کیوں کہ شاید بعد میں یاد نہ رہے، لیکن جب بھی سجدۂ تلاوت کرے گا ادا ہو جائے گا قضا نہیں کہلائے گا، اگر اس وقت سجدہ نہ کر سکے تو تلاوت کرنے اور سننے والے کو یہ کہہ لینا مستحب ہے سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا و الیك المصیر. لیکن عمر بھر میں کسی وقت وہ سجدہ کر لینا چاہیے، ورنہ گناہ گار  ہو گا۔‘‘

(سجدۂ تلاوت کا بیان، سجدۂ تلاوت کے متفرق مسائل، ص: 268،ط:  زوار اکیڈمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں