بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدے سے معذور شخص کے لیے قیام کا حکم، اور اس میں معاصر علماء کا اختلاف


سوال

اگر کوئی شخص عذر کی بنا پر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے تو کیا وہ قیام اور رکوع بھی کرسی پر بیٹھے ہی بیٹھے ادا کرسکتا ہے جب کہ وہ قیام اور رکوع پر قادر بھی ہو، نیز یہ بھی واضح رہے کہ ہمارے اکابر میں سے فقیہ العصر حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانیؒ اور عہد حاضر کے برصغیر کے دو ممتاز فقیہ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب(مدظلہ) اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب(مدظلہ) کی رائے گرامی معذور عن السجدہ جو قادر علی القیام ہو اس سے قیام کے ساقط نہ ہونے کی ہے، لہذا ان حضرات کے نزدیک کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا قیام و رکوع کھڑے ہوکر کرے، پھر کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے سجدہ کرے، نیز یہ بھی واضح رہے کہ: مذہبِ احناف میں معذور عن السجدہ سے قیام و رکوع ساقط ہے گو وہ قادر علی القیام کیوں نہ ہو اور اسے بیٹھ کر نماز پڑھنا ہی افضل قرار دیا گیا ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ:

صورتِ مسئولہ میں ان مذکورہ حضرات اکابر کی تحقیق اور احناف کے اصل مذہب کے پیشِ نظر شرعی حکم کیا ہے؟ اور عوام الناس کو کیا مسئلہ بتایا جائے، آیا حقیقی قیام و رکوع کو ضروری قرار دیا جائے یا اسے افضل قرار دیا جائے (كما هو رأي من سبق ذكرهم)یا پھر پوری نماز بیٹھ کر پڑھنے کو افضل بتلایا جائے (كما هو مذهبنا)؟   مفصل جواب سے نوازیں!

جواب

واضح رہے فقہاءِ کرام کی تصریح کے مطابق نماز میں قیام سجدہ کے لیے ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے، لہذا اگر کوئی شخص کسی عذر کی بنا پر زمین پر سجدہ سے عاجز ہوجائے (یعنی گھٹنوں کی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے) تو اس پر اس کے وسیلہ (یعنی قیام) کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔

باقی مذکورہ شخص اپنی نماز مکمل (زمین یا کرسی پر) بیٹھ کر اشارے سے پڑھے یا قیام اور رکوع  کھڑے ہوکر کرے اور سجدہ اشارے سے کرے؟  اس کے شرعی حکم سے متعلق  فقہاءِ کرام فرماتے ہیں اس کے لیے دونوں صورتوں جائز ہیں، چاہے وہ قیام اور رکوع  کھڑے ہونے کی حالت  میں کرے اور سجدہ بیٹھ کر اشارہ سے کرے، یا مکمل نماز بیٹھ کر اشارے سے ادا کرے۔ البتہ دوسری صورت یعنی مکمل نماز بیٹھ کر پڑھنا (خواہ زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہاہو یا کرسی پر) زیادہ بہتر ہے،  تاہم اس صورت میں سجدے میں رکوع کی بنسبت ذرا زیادہ جھکے۔

فقہاءِ کرام کی تحقیق اور دلائل کی روشنی میں اس مسئلہ میں ہماری (یعنی دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتیانِ کرام) اور دیگر اکابرین کی رائے سجدے سے عاجز ہونے کی صورت میں قیام کے سقوط کی ہے اور مکمل نماز بیٹھ کر پڑھنے کو ہی بہتر سمجھتے ہیں، اور یہی صورت عوام الناس کو بتلانی چاہیے۔

نیز چوں کہ اس مسئلہ میں فقہی عبارات کے مطابق دونوں صورتیں جائز ہیں، اس لیے اگر کوئی شخص اس عذر میں قیام اور رکوع کھڑے ہوکر کرتا ہو اور صرف سجدہ اشارے سے کرتا ہو  تو بھی درست ہے، لہذا اس کو انتشار اور فساد  کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومنها القيام) بحيث لو مد يديه لاينال ركبتيه ومفروضة وواجبة ومسنونة ومندوبة بقدر القراءة فيه، فلوكبر قائما فركع ولم يقف صح لأن ما أتى به القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه، قنية (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح  (لقادر عليه) وعلى السجود، فلو قدر عليه دون السجود ندب إيماؤه قاعدًا.

(قوله: فلو قدر عليه) أي على القيام وحده أو مع الركوع كما في المنية.(قوله: ندب إيماؤه قاعدًا) أي لقربه من السجود، وجاز إيماؤه قائمًا كما في البحر. وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة؛ لأن القيام ركن فلايترك مع القدرة عليه. ولنا أن القيام وسيلة إلى السجود للخرور، والسجود أصل؛ لأنه شرع عبادة بلا قيام كسجدة التلاوة والقيام لم يشرع عبادة وحده، حتى لو سجد لغير الله تعالى يكفر بخلاف القيام. وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسيلة كالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة، وما أورده ابن الهمام أجاب عنه في شرح المنية ثم قال: ولو قيل: إن الإيماء أفضل للخروج من الخلاف لكان موجهًا ولكن لم أر من ذكره.

(قوله: وكذا) أي يندب إيماؤه قاعدًا مع جواز إيمائه قائمًا لعجزه عن السجود حكمًا لأنه لو سجد لزم فوات الطهارة بلا خلف، ولو أومأ كان الإيماء خلفًا عن السجود."

(كتاب الصلوة، باب صفة الصلوة، فرائض الصلوة، ج:1، ص:444، ط:ايج ايم سعيد) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكذا لو عجز عن الركوع والسجود وقدر على القيام فالمستحب أن يصلي قاعدًا بإيماء وإن صلى قائمًا بإيماء جاز عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلوة، الباب الرابع عشر فى صلوة المريض، ج:1، ص:136، ط:مكتبه رشيديه) 

الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني میں ہے:

"فَإِن صلى وَكَانَ يَسْتَطِيع أَن يقوم وَلَايَسْتَطِيع أَن يسْجد؟ قَالَ: يُصَلِّي قَاعِدًا يومى إِيمَاءً، قلت: فَإِن صلى قَائِمًا يومى إِيمَاء؟ قَالَ: يجْزِيه."

(كتاب الصلوة، باب صلوة المريض فى الفريضة، ج:1، ص:217، ط:دارالكتب العلمية)

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"قَالَ: (فَإِنْ عَجَزَ عَنِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَقَدَرَ عَلَى الْقِيَامِ أَوْمَأَ قَاعِدًا) لِأَنَّ فَرْضِيَّةَ الْقِيَامِ لِأَجْلِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ؛ لِأَنَّ نِهَايَةَ الْخُشُوعِ وَالْخُضُوعِ فِيهِمَا، وَلِهَذَا شُرِعَ السُّجُودُ بِدُونِ الْقِيَامِ كَسَجْدَةِ التِّلَاوَةِ وَالسَّهْوِ وَلَمْ يُشْرَعِ الْقِيَامُ وَحْدَهُ، وَإِذَا سَقَطَ مَا هُوَ الْأَصْلُ فِي شَرْعِيَّةِ الْقِيَامِ سَقَطَ الْقِيَامُ; وَلَوْ صَلَّى قَائِمًا مُومِيًا جَازَ، وَالْأَوَّلُ أَفْضَلُ لِأَنَّهُ أَشْبَهُ بِالسُّجُودِ."

(كتاب الصلوة، باب صلوة المريض، ج:1، ص:77، ط:مطبعة الحلبى)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144205201353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں